...جنرل راحیل شریف ۔ اک ذرا احتیاط

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 11, 2017 | 08:13 صبح

ایلام ایران کی عراقی سرحد کے ساتھ سرسبز پہاڑوں میں گھری ہوئی حسین وادی ہے، سرحد پر واقع ایلام شہر پر عراق کا آسانی سے قبضہ ہو گیا، یہ انقلاب ایران کی شروعات تھیں اس لئے عراق کو خرم شہر پر تسلط جمانے میں زیادہ مشکلات پیش نہ آئیں ، عراق کے ساتھ جنگ کے باوجود ایران کا دفاع بھی مضبوط ہوتا جا رہا تھا، ایران نے خرم شہر کا عراقیوں سے قبضہ واگزار کرانے کی کوشش کی تو اسے کچھ ماہرین نے ناممکن قرار دیا، ایران کی طرف سے خرم شہر تک پہاڑی کی ڈھلوان 4 کلومیٹر لمبی ہے۔ عراقی فوج نے شہر کے ارد گرد بارودی سرنگ

یں بچھا دیں اور شہر کے دفاع سے بے نیاز ہو گئی۔ایرانی عسکری ماہرین نے سر جوڑے، فوجی قیادت نے کہا کہ اسے اگر خرم شہر تک 20 فٹ چوڑا محفوظ راستہ مل جائے تو وہ خرم شہر پر دوبارہ تسلط حاصل کر لیں گے۔ سوال یہ تھا، بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ، یہ کام ایرانی رضاکاروں کی فورس بسیج نے کر دکھایا۔

بسیج کی ایران میں تعداد 55 لاکھ ہے، یہ رضاکار فوجی تربیت سے مزین ہیں، 4 گھنٹے کے نوٹس پر وردی میں ملبوس، مسلح ہو کر قریبی شہر میں موجود ہوتے ہیں، بسیج فورس کے کمانڈر نے پیشکش کش ، پہاڑی سے شہر تک کا 20 فٹ راستہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کر دیں گے، کیسے؟ کمانڈر نے 120، 120 رضاکاروں پر مشتمل دو دستے تیار کئے، انکی کمان خود سنبھالی، فوجی حکام کو بتایا ’’ہم لوگ خرم شہر تک پیدل جائیں گے۔‘‘ کمانڈر کو بڑی مشکل سے قائل کیا گیا کہ وہ خود کمان نہ کرے۔

یہ دستے کندھے سے کندھا ملا کراللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے روانہ ہو گئے، بارودی سرنگیں پھٹتی رہیں، انکے چیتھڑے اڑتے رہے مگر وہ جانب منزل رواں رہے، عراقی فوج ایسی حکمت عملی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی، ایک گھنٹے سے قبل خرم شہر تک 20 فٹ کا محفوظ راستہ بن گیا، ایرانی فوج نے اس راستے سے گزرتے ہوئے خرم شہر میں بے خبر عراقی فوج کو جا دبوچا، ایران نے 35 ہزار بعثی فوجیوں کوگرفتار کیا۔ اس دن کو ایران میں یوم استقامت کا نام دیا گیا ہے۔

عرب ممالک کے پاس اسلحہ و دفاعی تنصیبات اور ساز و سامان کی کمی نہیں مگر اپنے دفاع کیلئے وہ کرائے کے فوجیوں کے مرہون منت ہیں۔ صرف اسلحہ کی مقدار اور معیار سے اگر دفاع مضبوط ہو سکتا ہے تو عرب ممالک کا دفاع ناقابل تسخیر ہوتا مگر مضبوط دفاع کیلئے دیگر لوازمات بھی ضروری ہیں۔

کویت کے ساتھ عراق نے جو کچھ کیا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ کویت کے مقامی اور غیر ملکی فوجی صدام کی فوج کے آگے ـ"سپرنٹ" لگاتے نظر آئے۔کویت کی آزادی کیلئے امریکہ کو جنگ میں کونا پڑا تو عراقی فوج کی بھی دوڑیں لگ گئیں۔ دوسرے امریکی حملے میں خود صدام کو فرار ہو کر روپوش ہونا پڑا اور بالآخر امریکی کٹھ پتلی حکومت نے انہیں پھانسی چڑھا دیا۔ ایک مضبوط دفاع کیلئے جدید اسلحہ، ماہر فوج اور فوج میں حب الوطنی اور جذبہ شہادت کا ہونا ناگزیر ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی کمی دفاع کی حیثیت ریت کی دیوار سے زیادہ نہیں۔ آج پاکستان میں یہ سب لوازمات موجود ہیں تو اس کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔

سعودی عرب کے پاس بہت کچھ ہے مگر دفاع ناقابل تسخیر نہیں۔ ایران اس کا پڑوسی ہے(سمندری حدود ملتی ہیں)۔ ایران کی طرف سے کئی بار جارحیت کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ سعودی عرب نے ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اسکے پاس اسلحہ و بارود کی کمی نہیں۔ اسکی اپنی فوج میں جذبہ شہادت اور حب الوطنی بھی بلاشبہ ہو گی مگر ملک کے اندر سے سعودیہ کو اس تعداد میں فوج دستیاب نہیں جو ایک بڑے ملک کے دفاع کیلئے ضروری ہے۔ اسے بھی غیر ملکی فوج پر انحصار کرنا پڑنا ہے۔ یہ فوجی کرائے کیلئے جاتے ہیں جان دینے کیلئے نہیں، البتہ حرمین کو خطرات درپیش ہوں تو امہ کا ہر فرد کٹ مرنے پر آمادہ و مائل ہی نہیں، جس حال میں ہو گا ایک کال پر گھر سے نکل کھڑا ہو گا۔ سردست بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

سعودی عرب اور یمن میں جنگ جاری ہے۔ جہاں جنگ کا تو نام ہی بدنام ہے۔ یمن کی سعودی عرب کی طرف سے اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے۔ سعودی عرب کی کبھی توسیع پسندانہ پالیسی نہیں رہی۔ یمن کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں یا دیگر خطرات تھے، سعودیہ کو اس حد تک جانا پڑا کہ مسلم امہ تقسیم ہوتی نظر آئی، او آئی سی کے اجلاسوں میں یہ تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ ایران ایٹمی قوت نہ سہی ایک بڑی دفاعی قوت ضرور ہے۔ امریکہ بھی اس کے خلاف جارحیت سے گریز کرتا ہے۔ ایران نے ظاہر دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ پراکسی وار میں بھی خود کو ماہر ثابت کیا۔ ایسی جنگ میں دولت کی فراوانی کا بھی ایک کردار ہے۔ یوں عرب ممالک بھی پراکسی وار میں بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میںعرب و عجم کی پراکسی وار کے جابجا شوہد نظر آتے ہیں۔

سعودی عرب کو جنگ یمن کے بعد اپنے دفاع کو مضبوط تر بنانے کی فکر لاحق ہوئی تو کبھی اس نے دس عرب ممالک کے دفاعی اتحاد کا اعلان کیا، کبھی دہشتگردی کیخلاف 39 مسلم ممالک کی فوج تشکیل دینے کی طرہ ڈالی ۔ 39 ملکی اتحاد میں سعودی عرب نے پاکستان کی شمولیت کا بھی اعلان کر دیا۔ اس اعلان پر وزارت خارجہ کے حکام اورسیاسی حکمران اس اتحادتفصیلات کی جھانک رہے تھے۔ اب اس اتحاد کا کمانڈر جنرل (ر) راحیل شریف کو بنائے جانے کی اطلاعات گرم ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان میں وزرائے کرام نے کنفیوژن پھیلا رکھی ہے۔ فوج کے حوالے سے خواجہ آصف کی سازشی ذہنیت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔انہوں نے گزشتہ ہفتے جنرل راحیل شریف کو اتحاد کا سربراہ بنائے جانے کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے معاہدے کو چند روز قبل حتمی شکل دی گئی اور یہ فیصلہ موجودہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا جبکہ اب اسحاق ڈار کہتے ہیں:۔ اگر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی پیشکش ہوئی تو وہ یقیناً حکومت سے اس کی اجازت لیں گے۔

جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب کی سربراہی میں 39 ملکی افواج کا کمانڈر بنائے جانے کی ایک کھچڑی پک رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنے فیصلے کرنے میں بالکل آزاد اور خودمختار ہیں۔ بطور آرمی چیف بھی انہوں نے بہت سے فیصلے کئے جن کے باعث بجا طور پر وہ قوم کے ہیرو مانے جاتے ہیں۔ ہم ان سے پیار انکی شخصیت کے دبدبے اور رعب دار مونچھوں نہیں، انکی کارکردگی اور کارناموں کی وجہ سے کرتے ہیں۔ وہ اس فوج کی کمانڈکرنے جارہے ہیں جو سعودی عرب کے مخالفین کیخلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ ایسے مخالفین میں ایران، یمن اور شام وغیرہ بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں جہاں سعودی عرب اور خادمین حرمین شریفین سے محبت کرنیوالوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے وہیں سعودی عرب کے مخالف ممالک سے وابستگی رکھنے والے بھی ہیں۔ انکے دل میں جنرل راحیل شریف کی شخصیت کا بنا مندر ٹوٹ جائیگا۔ سعودی عرب آزادی فلسطین کیلئے فوج بنائے یا او آئی سی کے زیر سایہ اسی مقصد کیلئے فوج بنا کر جنرل راحیل شریف کو کمانڈر مقرر کر دے تو پاکستانیوں کیلئے اس سے زیادہ فخر کا مقام نہیں ہو سکتا۔

جنرل ضیاء الحق نے اردن میں شاہی فرمان پر فلسطینیوں پر ٹینک چڑھا کر خود کو ہمیشہ کیلئے فلسطینیوں کی نفرت کا نشانہ بنا لیا۔ جنرل راحیل کو بھی کسی ملک کی طرف سے ایسی نفرت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ کمانڈر بننے کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ پاکستان میں ان کو بہت عزت ملی ہے اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ کمانڈری کے لالچ کو اپنے اعصاب پر سوار نہ ہونے دیں۔ 39 ملکوں کی ہاتھ آئی کمانڈری کو ٹھکرا دینا ان کیلئے بڑی آزمائش ہے مگر خود اپنی عزت اور پاکستان کے وقار کیلئے ایسا کرنا پڑیگا۔

سعودی عرب کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ اسے دوسرے ممالک سے فوج اور کمانڈر کرائے پر نہ لینے پڑیں۔ اس کیلئے وہ اسرائیل کو دیکھے جہاں ہر بچے کو فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ عرب ممالک کو اپنی بقاء اور ناقابل تسخیر دفاع کیلئے محلات اور شاہی خیموں سے نکل کر ہر ایک کیلئے فوجی تربیت اور جہاد کی موٹیویشن کا اہتمام کرنا ہو گا۔ کرائے کے کمانڈر اور فوجی کسی بھی ملک کا کما حقہ دفاع نہیں کر سکتے۔