میں اپنے جسم کی وجہ سے رقص پر شرمسار نہیں ہوں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 13, 2016 | 16:58 شام

’قاہرہ(بی بی سی)مصر کی غدیر احمد نے جب اپنی ایک بےحجاب رقص کی ویڈیو اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجی تو انھوں نے بالکل نہیں سوچا تھا کہ وہ اسے آن لائن پوسٹ کر دے گا مگر کئی برسوں کے بعد اس نے ایسا کر ہی دیا۔

بعد میں غدیر نے خود ہی اپنی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا، ’میں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس ویڈیو کی وجہ سے میرے شرمندہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‘

غدیر کی کہانی انہی کی زبانی

’سنہ 2009 میں میں 18 سال کی تھی۔ میں اور میری سہیلیوں کا گروپ اپنی ایک دوست کے گھر میں تھے۔

مصر میں کہیں بھی لڑکیوں کو کھلے عام ناچنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا ہم بند دروازے کے پیچھے ایک ساتھ ناچتی ہیں۔

میں نے اپنی ایک سہیلی سے کہا کہ وہ میرے موبائل فون پر میرا ناچتے ہوئے ویڈیو ریکارڈ کر دے۔ اس ویڈیو میں کچھ بھی فحش نہیں تھا۔ لیکن میں نے چھوٹے کپڑے پہن رکھے تھے، جس سے میرا جسم دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے کچھ دنوں کے بعد یہ ویڈیو اپنے بوائے فرینڈ کو بھیج دی۔ یورپ یا امریکہ میں یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر میں مصر کے ایک عام مسلمان خاندان سے ہوں۔

مصر کی زیادہ تر لڑکیوں کی طرح مجھے بتایا گیا تھا کہ شوہر کے سوا کسی مرد کو یہ حق نہیں کہ وہ میرا جسم دیکھے۔

میں ان دنوں گھر سے باہر نکلنے پر حجاب پہنا کرتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اس طرح کی ویڈیو اس آدمی کو بھیجنا جو میرا شوہر یا منگیتر تک نہیں تھا ایک خطرناک کام تھا۔ خیر، میں نے اسے بھیج ہی دیا۔ بعد میں میں نے اور خطرناک کام کر دکھایا اور اسے کچھ ذاتی تصاویر بھی بھیج دیں۔

 

سنہ 2012 تک ہم الگ ہو گئے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں پھر اس کے پاس واپس نہیں گئی تو وہ میری تصاویر اور وہ ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دے گا۔

اسے یہ پتہ تھا کہ میں ایک سیاسی کارکن اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے شخص کے طور پر اپنی عوامی پہچان بنا رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ ان تصاویر کا استعمال کر کے میرا کریئر اور میری ساکھ کو برباد کر سکتا تھا۔

میں واقعی ڈر گئی۔ مجھے لگا کہ میری زندگی خطرے میں ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاندان کی عزت بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کے اعمال پر منحصر ہوتی ہے۔

ہمارا جسم ہمارا اپنا نہیں ہے۔ وہ خاندان کے مردوں کا ہے اور یہ وہ برتن ہے جس میں خاندان کی عزت رکھی جاتی ہے۔

میں ڈر گئی کہ اس ویڈیو سے میرے والدین کو شرمندگی ہو گی، میرے دوست اور پڑوسی میرے والد کو یہ کہہ کر میری مذمت کریں گے کہ وہ میری پرورش ایک ’اچھی لڑکی‘ کے طور پر نہیں کر پائے۔

میں نے اپنے بوائے فرینڈ سے گزارش کی کہ وہ ان تصاویر یا ویڈیو کو شائع نہ کرے۔

ایک سال بعد سنہ 2013 میں میں اپنے دوستوں سے بات کر رہی تھی اور اسے کہہ رہی تھی کہ مجھے ناچنا اچھا لگتا ہے۔

اس گروپ میں بیٹھے ایک مرد کی بات میں کبھی بھول نہیں سکتی۔ اس نے کہا، ’مجھے معلوم ہے۔ میں نے تمہیں ناچتے ہوئے یو ٹیوب پر دیکھا ہے۔‘

میرے اس سابق بوائے فرینڈ نے نہ صرف ویڈیو اپ لوڈ کر دی تھی بلکہ اس نے میری تصاویر کا استعمال کر کے ایک ویڈیو مونٹاج بھی بنا دیا اور اسے بھی اپ لوڈ کر دیا۔

میں نے تصاویر والی ویڈیو تو کسی طرح یو ٹیوب سے ہٹوا لیں مگر رقص والا وہ ویڈیو وہیں رہا۔

میں نے ایک دوست اور وکلاء کی مدد سے ہتک عزت کا مقدمہ کر دیا اور پھر پولیس میں اس لڑکے کے خلاف رپورٹ لکھوا دی۔

میرے خاندان کو اب تک اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ لیکن چند ماہ بعد میری ماں نے مجھے فون کیا۔

میرے سابق بوائے فرینڈ نے قانون کے ڈر سے میرے باپ سے ملاقات کی اور سب کچھ بتا دیا۔ اس نے میرے والد کو میری ذاتی تصاویر بھی دكھائیں تاکہ ثابت کر سکے کہ اس نے میرا بدن دیکھ رکھا ہے۔

اس نے میرے خاندان کی عزت ’پھر سے بحال‘ کرنے کے لیے مجھ سے شادی کرنے کی پیشکش بھی کی۔ اس کی شرط یہ تھی کہ میں مقدمہ واپس لے لوں۔

مجھے اب تک شادی کی جتنی بھی پیشکشیں کی گئیں ان میں یہ سب سے ناقص تھی۔

میں گھر واپس آئی تو میری ماں بدحواس تھیں۔ انہوں نے کہا، ’تم نے ہمیں شرمسار کر دیا ہے۔‘ میں قاہرہ میں رہتی تھی، اور فوری طور پر وہاں جانے کی بس میں بیٹھ گئی۔ میں سمجھ چکی تھی کہ میں نے اپنا خاندان کھو دیا۔

صرف چند کلومیٹر جانے کے بعد میں نے یکایک بس ڈرائیور سے رکنے کو کہا۔ میں براہ راست اپنے گھر گئی اور ماں باپ سے کہا کہ وہ سب کچھ ٹھیک کرنے میں میری مدد کریں۔ میں نے کہا، ’میں آپ کی مدد کے بغیر اسے درست نہیں کر سکتی۔‘

میرے والد غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ غلطی میری نہیں، بلکہ اس شخص کی تھی جس نے میری پرائیویسی کی خلاف ورزی کی۔ وہ اس سے قطعی متفق نہیں تھے۔

لیکن زبردست سماجی دباؤ کے درمیان بھی میرے والدین نے رازداری کے حق کے معاملے میں میرا ساتھ دیا۔ ہتک عزت کے معاملے میں میرا سابق بوائے فرینڈ مجرم پایا گیا اور اسے غیرحاضر رہنے کی صورت میں ہی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

معاملے کو پٹری سے اتارنے کے لیے اس نے پیسے کے لین دین پر ایک مختلف مقدمہ مجھ پر کر دیا۔

پورے عمل سے اکتا کر میں نے شکایت واپس لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی سزا واپس ہو گئی، اسے گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے جیل جانا پڑا۔

سنہ 2012 میں مصر عرب سپرنگ مظاہروں کے ایک سال بعد میں نے’گرلز ریووليوشن‘ نامی گروپ بنایا تھا۔ یہ ٹوئٹر پر ایک ہیش ٹیگ سے شروع ہوا اور جلد ہی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والی لڑکیوں کی بڑی تحریک بن گیا۔

 

تقریباً اسی وقت میں نے حجاب اتارنے کا فیصلہ کر لیا اور فیس بک، ٹی وی پر مباحثوں اور دوسری جگہوں پر زیادہ مصروف ہوگئی۔

اس سے خفا کچھ مردوں نے سوشل میڈیا پر مجھے ذلیل کرنا شروع کر دیا۔ اکتوبر 2014 میں انھوں نے کچھ ٹرول پوسٹ کیے اور اس کے ساتھ ناچنے والے ویڈیو کا لنک بھی لگا دیا۔

انھوں نے اس کے ساتھ تبصرہ کیا، ’یہ ہے غدیر احمد، جو مصر کی لڑکیوں کو بگاڑنا چاہتی ہے، اور یہ ہے ویڈیو جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بےشرم ہے۔‘

میرے لیے یہ ٹوٹ جانے کا وقت تھا۔ میں نے غصے سے پھٹ پڑی۔ میں نے سوچا،’نہیں۔ کوئی مجھے بلیک میل کرے، میں یہ نہیں ہونے دوں گی۔ میں ڈروں گی نہیں۔ میں اپنے جسم کی وجہ سے شرمسار ہونے سے انکار کرتی ہوں۔‘

میں نے اپنی کہانی شیئر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ پوری دنیا میں ڈیجیٹل تصاویر کی وجہ سے دھمكائی جانے والی لڑکیوں کو حوصلہ ملے۔ لہٰذا، میں نے وہ ناچنے والی ویڈیو اپنے ہی فیس بک کے صفحے پر پوسٹ کر دی تاکہ پوری دنیا اسے دیکھ سکے۔

اس کے ساتھ میں نے پوسٹ لکھ، ’کل مردوں کے ایک گروپ نے سہیلیوں کے ساتھ رقص کرتے میرے نجی ویڈیو شیئر کر کے مجھے شرمسار کرنے کی کوشش کی۔ میں نے یہ لکھ رہی ہوں یہ اعلان کرنے کے لیے کہ ہاں اس ویڈیو میں میں ہی تھی اور میں اپنے بدن کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں۔‘

میں نے آگے لکھا، ’جو لوگ مجھ پر داغ لگانا چاہتے ہیں ان کو میں بتانا چاہتی ہوں کہ عورتوں کے جسم کو لے کر پورے مشرقی معاشرے میں غلط فہمیاں ہیں، حقوق نسواں کی علمبردار ہونے کی وجہ سے میں اس سے آگے بڑھ چکی ہوں۔ خوش ہو کر ناچنے کی وجہ سے میں بالکل شرمندہ نہیں ہوں، میں نے اپنی بہن کی شادی پر بھی ناچی تھی، جہاں میں نے جسم دکھانے والے اور چھوٹے کپڑے پہن رکھے تھے۔

اب میں آپ لوگوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کو دراصل کیا چاہیے؟ میرا جسم شرم کی وجہ نہیں ہے۔ اس ویڈیو پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔

 

یہ پوسٹ فوری طور پر پورے مصر میں وائرل ہو گیا۔ بہت سارے لوگوں نے دیکھا کہ میں کتنی بہادر ہوں اور میری منطق کو مان لیا۔ میرے قریبی دوستوں نے مجھے فون کر میری حمایت کی۔

آخر میں پانچ سال بعد مجھے لگا کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ میں نے گویا وہ دروازہ بند کر دیا۔

دو سال گزر جانے کے بعد آج مجھے ویڈیو پوسٹ کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ لڑکیوں کو جس سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے، اس سے باہر نکلنے میں انھیں بار بار اسے توڑنا پڑتا ہے۔

لڑکی کو تن کر کہنا پڑے گا، ’ہاں، ذاتی تصاویر کو لے کر مجھے بلیک میل کیا گیا۔ جی ہاں، میں نے انھیں اپنی مرضی سے ہی بھیجا تھا۔ اس کے باوجود کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مجھے ذلیل یا بے عزت کرنے کے لیے ان کا استعمال کرے۔‘

میں کہنا چاہتی ہوں ’آپ اکیلی نہیں ہیں۔ آپ کو جس جدوجہد کا سامنا ہے، میں اس سے گزر چکی ہوں۔ میں نے تنہائی، بےبسی، کمزوری اور شرم کو محسوس کیا تھا۔ ایسا وقت بھی آیا جب میں پوری طرح نڈھال ہوگئی۔‘

مجھے یہ حق نہیں کہ آپ سے کہہ سکوں کہ آپ بھی میری طرح ہی جدوجہد کریں لیکن میں اپیل کرتی ہوں کہ جس پر آپ کو بھروسہ ہو، اس سے مدد مانگیں۔

ایک بار مدد مانگنے سے آپ خود کو کم اکیلی اور کم خطرے میں پائیں گی۔ ہم ساتھ مل کر اس ثقافت کو تبدیل کر سکتے ہیں جو ہمیں خوفزدہ اور شرمندہ کرتی ہے۔ ہم ایک ساتھ جی سکتی ہیں، بہنوں کے طور پر ہم اس دنیا کو عورتوں کے لیے بہتر بنا سکتی ہیں۔‘