تحریک انصاف کا تعلق ترکی میں زیر عتاب گولن گروپ سے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 17, 2016 | 10:18 صبح

اسلام آباد(مانیٹرنگ) حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ترکی کے گولن گروپ سے تعلقات کا الزام عائد کردیا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ترک باغی گروپ سے روابط ہیں اور اس نے کسی اشارے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی آئی کے فیصلے اپنی پارٹی میں نہیں ہوتے بلکہ کہیں اور سے کیے جاتے ہیں، جن کی کچھ سمجھ نہیں آتی اور جن فیصلوں

کی سمجھ نہ آئے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی اور فیصلے کروا رہا ہے'۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا 'میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا فتح اللہ گولن کی سربراہی میں ترک صدر کے خلاف کام کرنے والی لابی سے تعلق ہے، جنھوں نے ان سے یہ فیصلہ کروایا۔'

سینیٹر مشاہد اللہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان آج بروز جمعرات (17 نومبر) کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔

جہاں دیگر جماعتوں کی جانب سے ترک صدر کے خطاب کو خوش آمدید کہا گیا وہیں تحریک انصاف نے 12 نومبر کو پارلیمنٹ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

بعدازاں پی ٹی آئی کے کئی ارکان اور دیگر جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کے بعد عمران خان نے اس فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا،پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ترک سفیر صادق بابر گرگن کی درخواست کے بعد ان کی جماعت نے فیصلے پرنظرثانی کا فیصلہ کیا۔

تاہم 15 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کی قیادت نے ترک صدر طیب اردگان کے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر برقرار رہنے کا اعلان کردیا۔

فتح اللہ گولن کون ہیں؟

امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش پذیر 75 سالہ ترک مبلغ فتح اللہ گولن کبھی طیب اردگان کے اتحادی تھے، مگر اب امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

گولن اپنے آبائی ملک میں خاصے مقبول ہیں اور انھیں پولیس اور عدلیہ کی بھی حمایت حاصل ہے، تاہم حالیہ چند برسوں میں اردگان ترک معاشرے، میڈیا، پولیس اور عدلیہ میں خودساختہ گولن تحریک کی طاقتور موجودگی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

فتح اللہ گولن پر ترکی میں غداری کا الزام لگایا گیا، جس کے بعد وہ 1999 میں امریکا منتقل ہوگئے تھے، اُس وقت کے بعد سے وہ ریاست پنسلوانیہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انٹرویو دینے یا عوام کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔

اردگان اور گولن کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2013 کے آخر میں اُس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب گولن سے قریب محکمہ استغاثہ کے بعض افسران نے اردگان کے بیٹے بلال سمیت ان کے قریبی ساتھیوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔

جس کے بعد طیب اردگان نے سرکاری ملازمتوں اور اہم عہدوں پر فائز گولن تحریک کے ہزاروں مبینہ حامیوں کو برطرف کردیا، ان کے اسکول بند کردیئے گئے اور سیکڑوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے، جبکہ اُن اخبارات کے ایڈیٹرز کو بھی برطرف کردیا گیا، جو حکومت کے مطابق گولن کے حامی تھے۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔

ترک حکومت کی جانب سے گولن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 'ریاست کے اندر ریاست' قائم کر رکھی ہے اور ان کے حامیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صحافت، عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں اپنا حلقۂ اثر قائم کر رکھا ہے۔

رواں برس جولائی میں طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا الزام بھی فتح اللہ گولن پر عائد کیا گیا، جس کے بعد ترک حکومت نے ملک میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔

دوسری جانب ترکی نے توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان فتح اللہ گولن کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کو بند کرے گا، جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان کی حالیہ پاکستان آمد کے موقع پر وزارت داخلہ نے پاک ترک اسکولز اور کالجز کے ترک عملے کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملکی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی، اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے۔