حج : اہلِ ایمان کے تعلق کا غیر فانی ذریعہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 31, 2017 | 07:24 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ سیدمحمد وجیہ السیما ء عرفانی):اسلا م کے ارکان ، یعنی بنیادی اور اصولی احکام میں حج ایک اہم رکن ہے۔ قرآ ن حکیم میں ارشاد ہو ا ’’وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا‘‘ اس میں پہلی بات ہے حج کا عز م اور تیاری، تو فرمایا ’’لِلہِ ‘‘ یعنی حج کا ارادہ اور اس کی تکمیل خالصاً اللہ جل شا نہٗ کے لیے ہو۔ ’’عَلَی النَّاس‘‘ سے اس کی ہمہ گیری واضح فرمائی ، کہ یہ سبھی مسلمانوں

کے لیے جہاں بھی ہو ں اور جس کسی زمانے میں ہوں ،حج ہمیشہ ایسا فرض رہے گا کہ اس کے لازم ہو نے میں کبھی فر ق نہیں آئے گا۔حج البیت کا مفہوم یہ ہے کہ حج صرف اور صرف کعبۃ اللہ اور حرم پاک ہی میںہو سکے گا۔ عالم کائنات کے کسی بھی اور مقام پر حج نہیں ہو گا۔ آخرمیں رعایت کی شرط فرمائی کہ’’ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا‘‘ یعنی وہ شخص حج کر ے جس کے پاس اس کی سکت ہو، اس طرح معذور، ناداریا وہ شخص جو کسی بھی طے شدہ سبب سے حرم کعبہ تک پہنچ نہ سکتاہو وہ اس کی فرضیت سے مستثنیٰ ہو گا۔

سو حج کے لیے پہلی شرط اخلاص لِلّہ کی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت اسی شخص کو حاصل ہو سکتی ہے جس کا ایمان مکمل ہو، اللہ تعالیٰ کے دین و شریعت پر پورا یقین رکھتا ہو ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن مجید اور دین حق کے نام کے تمام لوازم اس کے پیش نظر ہو ں اوردل میں ہر دینی فرض کی تکمیل کا جذبہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔

کعبۃا للہ ایک گھر یا ایک مکان یا مقام ہے جسے حق تعالیٰ نے خوداپنی منشا سے اور اپنے احکام برحق کے ذریعے اپنی تجلی گاہ بنایا ہے۔ ’’لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاً‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر وہ ہے جو مکہ مکر مہ میں ہے اورخود اللہ جلَ شانہٗ نے اسے ایسا بنایا ہے کہ وہ برکت کا محور ہے اور وہاں سے برکتیں عطا ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی تعمیر سید نا حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہم السلام نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی۔ایک کیف سرشاری میں اس کے گرد پھیرے لگا ئے اور نمازیں پڑھیں۔یہی طواف ہے اور یہی سجود ہے جو حرم کعبہ میں حج کے مناسک میں ہیں۔

قرآ ن مجید میں ارشادفرمایا کہ اے ابراہیم ! آپ ساری کائنات کو حج کے لیے آواز دے دیں۔ جب تک یہ کائنات موجودہ ہے ، لوگ ہر سمت سے ہر ز مانے میں اور ہر صورت سے یہاںآ تے رہیں گے تاکہ یہاں پہنچ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ان کے لیے نفع کی ساری صورتیں یہیںموجود ہیں او ر تاکہ اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کریں۔

سو حج ایسا فرض ہے جو پوری ملت اسلام کے لیے ان تمام صورتوں کا حامل ہے جن میں ملت کے اجتماعی مفادات اور ہر صاحب ایمان کے انفرادی انعامات ہیں۔حج عالم اسلام کاایک ایسا اجتماع ہے جس میں رنگ و نسل تو کیا زمان و مکان کی بھی ساری حدیں ٹوٹ جاتیں ہیں۔ پورے کرئہ زمین پر کو ئی بھی مسلمان جہاں کہیں بستاہے ،حج کے لیے کعبۃا للہ پہنچتا ہے۔احرام کے لباس میں سر سے ننگے ایک اللہ کے ایک ہی گھر میں ،خواہ وہ مسلمان کسی بھی ملک کا رہنے والاہے ،کو ئی بھی زبان بولتاہے ،کسی بھی نسلی گروہ سے تعلق رکھتاہے ، کسی بھی حیثیت کا حامل ہے ، امیر ہے یا غریب ، عالم ہے یا اَن پڑھ ، مشہور ہے یا غیر مشہور ،اس اللہ کے گھر میں کسی کی کو ئی تخصیص نہیں۔وہاں سارے دل ایک ساتھ اللہ کے نام پر لرزاں اور ایک حق کی عظمت سے شناسا ہو تے ہیں۔ایک ہی نبی عربی،صلی اللہ علیہ وسلم ،کا کلمہ پڑھتے ہیں ،ایک ہی رنگِ کیف و عبودیت میں ڈوبے ہو ئے یہی یک رنگی اور یک آہنگی ہے جو دین اسلام کا عنوان وامتیاز ہے اور اسی ملی وحدت کا ہنگامہ حج میں ہے۔اس ربانی عالمی یک رنگی میں وہی خوشبوئے وحدت ہے جس کا درس نبی آخرالزماں رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے کائنات کو دیا ہے۔

حج اہل ایمان کے ہمہ گیر باہم ربط و تعلق کا ایک ایسا غیر فانی ذریعہ بھی ہے جو ہر سال ہوتا ہے۔اس میں جہاں مزاج ایمان کا شوق فراواں ہے اور لذت بندگی بھی ، وہاںاہل عالم کو دیکھنے اور مردان خدا کی عرفان آشنا کیفیتوں سے شناسا ہو نے کے سامان بھی ہیں،روئے زمین پر اور عالم انسانیت میں کو ئی بھی طرز زندگی اتنی ہمہ گیر اور بھرپور کیفیت عمل کبھی نہیں دے سکا جو اللہ جلَ شانہٗ نے اپنے احسان عظیم سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کوعطا فرمائی، یہ حج کی اجتماعی سعادتیں ہیں۔

دین حق ہر فرد کے عمل میں نیت کا اخلاص اور ذاتی نیکی کا سب سے بڑا داعی ہے۔ اس عمل کو بھی حج میں مکمل طور پر لازم فرمایا۔ قرآ ن حکیم میں ارشادفرمایا کہ حج کے لیے ایک وقت معین ہے ،تو جو کو ئی ان مقررایا م میں حج کر ے ’’فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ لا وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَج‘‘ وہ ہر گز کسی ذاتی گناہ کے قریب بھی نہ جائے ، کو ئی بھی ایسی بات ہر گز نہ کر ے جو دوسرے مسلمان کو بری لگتی ہو اور ہر گز کسی سے کسی نوع کا جھگڑا نہ کر ے۔ مطلب یہ ہواکہ تقویٰ، نیکی ،پاکبازی اور سلامتیٔ دین کے خلاف جو کو ئی بات بھی ہو سکتی ہے ، مکمل طور پر اس سے کنارہ کش رہے ’’وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہ ‘‘برائیاں پوری طرح ترک کر دینے کے بعد جتنی بھی نیکیاں تم کر تے رہو گے ، یادرکھو ، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں، ان کی جزا ضرور ملے گی اور صلہ لازما ً عطا ہو گا۔۔۔وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰیٰ اب یہی نہیں کہ خرابیوں کا ترک اور نیکی کا التزام صرف انہی ایام میں رکھو،بلکہ اس تقویٰ کو زندگی کے پور ے سفر کا سامان بنالو ،کیونکہ یہی سب سے بہترزاد سفر ہے۔ یہ حج کی وہ برکات ہیں جو انفرادی طور پر ہر ایک صاحب سعادت کو میسر آتی ہیں۔

سو اتنی ڈھیر ساری اجتماعی اورانفرادی خیر اور برکتیں ،سعادتیں اور ظاہر ی اور باطنی نعمتیں سمیٹنا حج کے انعامات ہیںاورایسی ہی کیفیتوں کے ساتھ ،حرم نبوی یعنی مدینہ منورہ، حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگا ہ میں حاضری پر اس بابرکت سفر کی نعمتیں تمام ہو تی ہیں۔ حج و زیارت کی یہی وہ سعادتیں ہیں جو اللہ جلَ شانہٗ نے فرض کی ہیں، حضور سرور انبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے لیے واضح ہدایات دی ہیں،قرآ ن حکیم اور احادیث مبارکہ میں جن کے مفصل احکام مو جود ہیں اوراسی بابرکت سفر اور ادائے مناسک کی آرزو ہر دل میںہے۔ اللہ جلَ شانہٗ ہمیں ان تمام سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ مند فرمائے اور ہمیشہ انہی سعادتوں کا امین رکھے۔

آمین