حج بیت اللہ کی تاثیر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 18, 2017 | 06:23 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی):  ”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے حج کرے اور اس میں بری باتیں اور برے کام نہ کرے تو وہ حج کر کے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا۔“
حج کی حقیقت ہی یہی ہے کہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیمؑ و اسماعیلؑ جیسی برگزیدہ بندوں کی پیروی

کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم و رضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا اور اس بندگی کے طریقے کو اسی طرح بجا لانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجا لائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے۔ یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے جس کو حاجی حضرات ان برگزیدہ بندوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔ اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں۔ اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں۔ نہ خوشبو لگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں، نہ سر ڈھانپتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ میں حاضر ہو کر پکارا ”میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔“
آج دنیا بھر سے تمام مسلمانوں کی زبان پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے وہی کلمات جاری ہوتے ہیں۔ حجاج کرام یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسماعیلؑ کی والدہ محترمہ ہاجرہ ؑنے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے۔ آج دنیا بھر سے اہل ایمان وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں۔ مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں۔ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں، خدا کے حضور گڑگڑاتے، روتے ہیں، اپنے گناہ معاف کرواتے ہیں اور آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرتے ہیں۔ اسی طرح وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں۔ یہ تاریخی میدان، دعا کی قبولیت کیلئے ، لاکھوں بندگان خدا کا ایک وحدت کے رنگ میں، ایک جیسے لباس میں جمع ہونے کا مقام ہے۔ جہاں ابراہیمؑ سے لے کر محمد رسول اللہ تک بہت سے انبیاءاسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار اور نس نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی کے مطابق اپنے باپ ابراہیم کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کہتے ہیں” میں نے موحّد بن کر ہر طرح سے منہ موڑ کراس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ (الانعام آیت 79)
پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے۔ ”میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔“ (الانعام آیت 163-162) حج بیت اللہ کے بعد ارشاد نبوی کے مطابق عازمین کی کیفیت یقینا ایسی ہوتی ہے جیسے گویا ابھی جنم لیاہو۔