کہتے ہیں اک شہر تھا جیسے حلب کہتے تھے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 19, 2017 | 19:27 شام

 لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک):اسے شام کا سب سے بڑا شہر کہا جاتا تھا، لیکن چار سال کی خانہ جنگی نے حلب کے زیادہ تر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔دیکھتے ہیں بی بی سی کے مشرقِ وسطیٰ کے نامہ نگار جیرمی بوون مشرقی حلب کی رپورٹ جو اس شہر کی خالی گلیوں میں گھومے ہیں جو کبھی باغیوں کے قبضے میں تھا۔

کبھی باغیوں کے

زیرِ کنٹرول رہنے والے مشرقی حلب کی ایک گلی میں ابھی بھی رکاوٹیں نظر آ رہی ہیں

جنگ نے نہ صرف شہر کو کھنڈر بنایا بلکہ یہاں موجود بچوں کی زندگیاں، تعلیم اور مستقبل کو بھی تباہ کر دیا

مشرقی حلب کے تباہ شدہ ایک حصے میں ایک شخص سبزیاں بیچتے ہوئے

سردی سے بچنے کے لیے ایک بچہ آگ سینکتے ہوئے

اس کھنڈر میں بھی جہاں پینے کا پانی بھی بہت کمیاب ہے تقریباً چالیس ہزار لوگ واپس آ چکے ہیں۔

یہ جو بچہ پانی لے کر جا رہا ہے ذرا اس کی آنکھ کے نیچے غور سے دیکھیں۔ یہاں اسے ایک بم کا ٹکڑا لگا تھا جس کا کچھ حصہ شاید اب بھی جلد کے نیچے موجود ہے

بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اتنا کچھ ہوا لیکن اب بھی وہ حلب، حلب کے نعرے لگا رہے ہیں۔

شہر کے درمیان میں ایک نان بائی نے فیصلہ کیا کہ اس شہر کو ’کپ کیکس‘ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

بچے یہاں سکول تو نہیں جاتے لیکن ان کو زندہ رہنے کے لیے کام بڑوں جتنا کرنا پڑتا ہے

جنگ نے شہر ویران کر دیا ہے۔ مشرقی حلب کی سڑکوں اور گلیوں میں وحشت کا راج ہے۔

حلب کے تاریخی حصے کا ایک منظر۔ یہاں باغیوں کے مورچے ہوا کرتے تھے۔