حضرت شیخ العالم خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ​ کی حالاتِ زندگی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 10, 2017 | 18:19 شام

لاہور(مہرماہ رپورٹ):پاک و ہند میں اسلام صوفیائے کرام کی مساعی جمیلہ سے پھیلا ۔ اس خطے میں ان مردانِ با خدا کا وجود مسعود اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھا (اور بفضلہ تعالیٰ اب بھی ہے) ۔ برصغیر میں مسلمان سلاطین نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی ، اس دوران میں ہندوؤں نے اسلامی کلچر کو نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صوفیا کرام کی مسلسل تبلیغی کوششوں کے سامنے وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ پروفیسر ایچ آر گب نے کتنا صحیح لکھا ہے:

تاریخ اسلام میں بارہا ا

یسے مواقع آئے کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔

(اسلامک کلچر مطبوعہ لندن)

صوفیا کرام کا ہاتھ ہمیشہ ملت کی نبض پر اور دماغ تجدید و احیا کی تدابیر سوچنے میں مصروف رہا ۔ مادیت کے سیلاب کو روکنے اور ذہنی انتشار کو ختم کرنے کا جو عظیم الشان کام اس جماعت نے سرانجام دیا وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔

بلاشبہ ان بزرگوں نے جب کبھی قوم کا اخلاقی مزاج بگڑتا ہوا دیکھا تو اپنی تمام تر ذہنی اور عملی صلاحیتیں صحت مند عناصر کو ابھارنے میں صرف کر دیں۔

حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں تبلیغ و ہدایت کے منصب پر مامور فرمایا تو اس وقت حالات نہایت ہی نامساعد تھے ، سلطان التمش کی وفات ہو چکی تھی ، بڑے بڑے علما موقع سے فائدہ اٹھا کر میدانِ سیاست میں کود پڑے تھے ۔ لیکن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سیاسی بکھیڑوں سے بچ کر دینِ حق کی خاطر جو شاندار خدمات سر انجام دیں ، وہ آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔

حضرت بابا صاحب دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادے پر بیٹھے تھے ، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ دارالسلطنت کا ماحول تبلیغ و ترویج پر اثر انداز ہونے لگا ہے تو وہ دہلی چھوڑ کر ہانسی تشریف لے گئے ۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پیر و مرشد نے یہی مقام آپ کو دیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا ” میرے پیر نے جو نعمت مجھے عطا فرمائی وہ کسی خاص مقام سے وابستہ نہیں ہے”

(سیر الاولیا صفحہ 73)

حضرت بابا صاحب پہلے ہانسی اور بعد میں اجودھن تشریف لے گئے ۔ اجودھن پاک پتن کا پرانا نام ہے ۔ یہاں بابا صاحب نے اپنی تربیت خاص کے سانچے میں ڈھال کر جو لوگ تیار کئے ان میں شیخ جمال الدین ہانسوی ، شیخ بدر الدین اسحاق ، شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ، شیخ علی احمد صابر کلیری اور شیخ عارف جیسے مردان حق شامل ہیں جو بابا ساحب کے مکتبِ صحبت سے فارغ ہونے کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر طرف خدا کے دین کا بول بالا کر دیا۔

بابا صاحب کا شجرہ نسب

تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسل فاروقی ہیں ۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کا سلسلہ نسب اس طرح مل جاتا ہے؛

1۔۔حضرت شیخ جمال الدین سلیمان والد

2۔ شیخ شعیب

3۔ شیخ احمد

4۔ شیخ یوسف

5۔ شیخ محمد

6۔ شیخ شہاب الدین

7 شیخ احمد  ۔معروف بہ فرخ شاہ بادشاہ کابل 

8۔ شیخ نصیر الدین

9۔ محمود شاہ

10۔ سامان شاہ

11۔ شیخ سلیمان

12۔ شیخ مسعود

13۔ شیخ عبداللہ واعظ الاکبر

14۔ شیخ ابوالفتح

15۔ شیخ اسحاق

16۔ حضرت خواجہ ابراہیم شاہ بلخ

17۔ خواجہ ادھم

18۔ شیخ سلیمان

19۔ شیخ ناصر

20۔ حضرت عبداللہ

21۔ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ؛

والدین کریمین

بابا صاحب کے دادا حضرت شیخ شعیب کو اللہ تعالیٰ نے تین فرزند عنایت فرمائے۔

1۔ خواجہ جمال الدین سلیمان

2۔ خواجہ احمد

3۔ خواجہ سعد حاجی

خواجہ جمال الدین سلیمان حضرت بابا صاحب کے والد تھے جو نہایت عالم و فاضل اور دیندار بزرگ تھے ۔ جن دنوں خواجہ شعیب کھتوال میں سکونت پذیر تھے ، انہی دنوں نواحِ کابل سے ایک خاندان ہجرت کر کے قصبہ کوٹ کروڑ (نواح ملتان) اقامت گزیں ہوا ۔ اس خاندان کے سربراہ مولانا وجیہہ الدین خجوندی تھے ، جو معتبر عالم اور نہایت متقی بزرگ تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ملتا تھا ۔ ان کی صاحبزادی قرسم خاتون تھیں ۔ خواجہ شعیب نے مولانا وجیہہ الدین خجوندی سے اپنے فرزند خواجہ سلیمان کے لیے بی بی قرسم خاتون کے رشتے کی درخواست کی ۔ مولانا خجوندی فوراً رضامند ہو گئے ۔ اس طرح خواجہ سلیمان اور بی بی قرسم خاتون کا عقد عمل میں آیا۔

خواجہ سلیمان کی طرح حضرت بی بی قرسم خاتون بھی نہایت عبادت گزار اور شب زندہ دار خاتون تھیں۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ وہ کثرتِ عبادت کی بدولت درجہ ولایت پر فائز تھیں۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ ایک رات بی بی قرسم خاتون نماز تہجد میں مشغول تھیں کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ جونہی بی بی صاحبہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو گیا ۔ اس پر اس نے گریہ و زاری شروع کر دی اور کہنے لگا کہ جس نیک بخت کی بددعا سے میری بینائی سلب ہوئی ہے میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میری بینائی دوبارہ مجھے مل جائے تو میں عمر بھر چوری نہ کروں گا۔

بی بی صاحبہ کو اس کی فریاد اور گریہ زاری پر ترس آگیا اور انہوں نے بارگاہ الہی میں اس کی بینائی کے لیے دعا کی۔ چور کی بصارت عود کر آئی۔ اس وقت بی بی صاحبہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور رخصت ہو گیا۔

اگلی صبح وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوا اور اہل و عیال سمیت مشرف باسلام ہو گیا ۔ حضرت بی بی صاحبہ نے اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا۔ عبد اللہ قبول اسلام کے بعد کثرت مجاہدات و ریاضات کی بدولت درجہ ولایت پر پہنچا اور اسے خاندانِ خواجہ شعیب کی طرف سے “چاولے مشائخ” کا لقب عطا ہوا۔ بعد میں قصبہ کھتوال اسی کے نام سے “چاولے مشائخ” سے مشہور ہو گیا۔

حضرت خواجہ شعیب اور خواجہ سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے تین فرزند اور ایک صاحبزادی عطا فرمائی جن کے نام یہ ہیں

1۔ حضرت عزیز الدین رحمۃ اللہ علیہ

2۔ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ

3۔ حضرت نجیب الدین متوکل

4۔ حضرت بی بی ہاجرہ ملقب بہ جمیلہ خاتون ۔والدہ ماجدہ حضرت مخدوم سید علاوالدین علی احمد صابر کلیری

ابتدائی تعلیم

حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابھی کم سن تھے کہ ان کے والد ماجد نے وفات پائی اور ان کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ محترمہ کے سر پر آ پڑی ۔ وہ خود علم و فضل کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی تھیں ۔ انہوں نے نہایت توجہ سے اپنے لخت جگر کی پرورش اور تربیت کی ۔ بابا صاحب نے ابتدائی تعلیم کھتوال سے حاصل کی ۔ نہایت ذہین اور محنتی تھے ۔ جو سبق ایک دفعہ پڑھ لیتے ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہو جاتا۔

بابا صاحب بچپن میں ہی نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بدتمیز اور شرارتی بچوں کے ساتھ نہ کھیلتے تھے ۔ انکی والدہ کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ کم سنی میں ہی نماز کے سخت پابند ہو گئے تھے۔ سات سال کی عمر میں انہوں نے تمام ابتدائی دینی کتب ختم کر لیں تو والدہ کو ان کی مزید تعلیم کی فکر ہوئی۔ کھتوال میں کوئی ایسا عالم نہ تھا جو آپ کو علوم متداولہ کی تکمیل کرا سکتا۔ ملتان ان دنوں علم و دانش کا مرکز تھا ، وہاں بڑے بڑے نامور علما موجود تھے ، چنانچہ بابا صاحب کی والدہ نے انہیں مزید تعلیم کے لیے ملتان بھیج دیا۔

ملتان میں قیام

ملتان پہنچ کر آپ نے ایک مسجد میں قیام کیا۔ یہ مسجد ایک سرائے میں واقع تھی ، جہاں اس دور کے ایک نامور عالمِ دین مولانا منہاج الدین ترمذی درس دیا کرتے تھے۔ بابا صاحب نے انہی سے علوم دینہ کی تعلیم شروع کی اور دو تین سال کے اندر اندر تفسیر ، حدیث ، اصول ، معانی ، فلسفہ ، منطق ، ریاضی اور ہیئت کی کتابیں ختم کر لیں ۔ ایک روایت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید بھی اسی مسجد میں حفظ کیا (بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق قرآن حکیم بابا صاحب نے کھتوال ہی میں حفظ کر لیا تھا)۔

اسی مسجد میں ایک روز بابا صاحب فقہ کی مشہور کتاب نافع پڑھ رہے تھے کہ قطب عالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لائے ۔ انہوں نے بابا صاحب کو مصروف مطالعہ پا کر پوچھا ؛ میاں ! کیا پڑھتے ہو؟

آپ نے جواب دیا نافع! حضرت نے پھر سوال کیا : کیا اس کے مطالعہ سے تمہیں کچھ نفع حاصل ہو گا؟

اب جو بابا صاحب کی قطب عالم سے نظریں چار ہوئیں تو عجیب کیفیت ہوئی ، فوراً قدموں پر سر رکھ دیا اور عرض کیا : حضرت نفع تو مجھے آپ کی نگاہِ کیمیا اثر سے حاصل ہو گا!۔۔۔۔۔۔

اب کیا تھا ۔ بابا صاحب حضرت خواجہ قطب صاحب کے دامن دولت سے وابستہ ہو گئے۔ حضرت قطب صاحب جتنے روز ملتان مقیم رہے بابا صاحب ان کی صحبت سے مستفیذ ہوتے رہے ، جب قطب صاحب دہلی کے لئے روانہ ہونے لگے تو بابا صاحب بھی ان کے ساتھ چل دیئے ۔ ابھی چند میل ہی چلے ہوں گے کہ قطب صاحب نے ارشاد فرمایا:

“میرے عزیر! ابھی کچھ مدت اور علم ظاہری کی تحصیل میں صرف کرو۔ فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آ جانا۔ ان شاء اللہ اپنی مراد کو پہنچو گے” بابا صاحب نے پیر و مرشد کے اس ارشاد کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

ملتان سے تکمیلِ علوم کے بعد انہوں نے مزید پانچ سال تعلیم کے لیے خطہ قندھار ، غزنی ، بغداد ، سیوستان اور بدخشاں وغیرہ میں گزارے اور پھر دہلی میں آئے۔ جہاں حضرت قطب صاحب کے آستانے پر حاضری دی۔ قطب صاحب نے فرمایا : ” خوب ہوا۔ تم اپنا کام پورا کر کے میرے پاس آئے”۔

بعض تذکروں میں یہ بھی ہے کہ بابا صاحب نے دہلی آ کر حضرت قطب صاحب کی بیعت کی۔ خود ” فوائد السالکین” میں بابا صاحب نے اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح سے بیان کیا ہے ؛

جب اس بندہ حقیر خادمِ درویشاں کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی نعمتِ قدم بوسی حاصل ہوئی ، تو آپ نے اسی وقت کلاہ چہار ترکی میرے سر پر رکھی۔ اس مجلس میں قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا علاوالدین کرمانی ، سید نور الدین مبارک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ نظام الدین الموید ، مولانا شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ محمود موئنہ دوز اور بہت سے دوسرے درویش موجود تھے۔ اسی موقع پر حضرت خواجہ بختیار کاکی نے فرمایا : “اے فرید! مرشد میں اتنی قوت باطنی ضرور ہونی چاہیے کہ جو شخص اس سے بیعت کا طالب ہو اس کے سینے کی آلائش کو اپنے تصرفِ روحانی سے ایک ہی نگاہ میں دور کر دے اور اس کے بعد اس سے بیعت لے کر واصل الی اللہ کر دے۔ اگر مرشد میں اتنی قوت نہیں تو پیر اور مرید دونوں بادیہ ضلالت میں ہیں”

بعض تذکرہ نگاروں نے قیاساً لکھا ہے کہ قطب صاحب نے ملتان میں بابا صاحب سے رسمی بیعت لی اور جب وہ تعلیم و سیاحت سے فارغ ہو کر دہلی آئے تو ان کے سر پر کلاہ چہار ترکی رکھی اور باقاعدہ اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرمایا۔

بابا صاحب نے دیکھا کہ دہلی میں ہجوم مرداں کی وجہ سے یکسوئی میسر نہیں تو مرشدِ کامل کی اجازت سے ہانسی چلے گئے ، لیکن وہاں سے دہلی آتے جاتے رہے۔

ایک دفعہ آپ دہلی آئے تو خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما تھے ۔ چناچہ آپ ان کی توجہ سے فیض یاب ہوئے۔ “سیر العارفین” میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بابا صاحب کے ذوق و شوق اور روحانی استعداد سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان کے پیر و مرشد اور اپنے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے فرمایا :

“بابا بختیار! شہباز عظیم بقید آوردہ کہ جز بہ سدرۃ المنتہے آشیاں نگیرد۔

این فرید شمعیست کہ خانوادہ درویشاں منور سازد”

(سیر العارفین صفحہ 23)

گنج شکر

گنج شکر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے مختلف روایات لکھی ہیں یہاں پر صرف تین روایتیں درج کی جاتی ہیں۔

تاریخ فرشتہ میں مرقوم ہے کہ بابا صاحب کی والدہ ماجدہ بچپن میں نماز کی پابندی کرانے کے لئے ان کی جا نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں اور ان سے فرماتی تھیں کہ جو نماز پڑھتے ہیں ، ان کی جا نماز کے نیچے سے روزانہ انکو شکر مل جاتی ہے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ والدہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ کچھ دیر بعد انہیں یاد آیا تو گھبرا کر پوچھا : مسعود ! تم نے نماز پڑھی؟ بابا صاحب نے ادب سے جواب دیا : ہاں امی جان ! نماز پڑھ لی اور شکر بھی کھا لی ۔ یہ جواب سن کر انکی والدہ بڑی حیران ہوئیں اور سمجھ گئیں کہ اس بچے کی غیب سے مدد ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس وقت سے انہوں نے اپنے بچے مسعود کو گنج شکر کہنا شروع کر دیا۔

اخبار الاخیار ، خزینۃ الاصفیا اور گلزار ابرار میں لکھا ہے کہ ایک سوداگر گاڑی پر شکر لاد کر ملتان سے دہلی جا رہا تھا ، جب اجودھن پہنچا تو راستے میں حضرت شیخ کھڑے تھے آپ نے اس سے پوچھا کہ اس میں کیا لدا ہوا ہے؟ سوداگر نے ٹالنے کے لیے کہا: نمک ہے بابا اس ہر آپ نے فرمایا : اچھا نمک ہی ہو گا ۔ سوداگر نے منزل پر پہنچ کر جب دیکھا تو بوروں میں شکر کے بجائے نمک تھا۔ بہت پریشان ہوا اور پھر واپس منزل اجودھن حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی طلب کی ۔ آپ نے فرمایا : جھوٹ بولنا بری بات ہے ۔ آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ پھر فرمایا : بوروں میں شکر تھی تو ان شا اللہ شکر ہی ہو گی۔

سوداگر نے جھوٹ سے توبہ کی اور جا کر بوروں کو دیکھا تو ان میں شکر بھری ہوئی تھی۔ بیرم خان خانخاناں نے اس واقعہ کو اس طرح نظم کیا ہے

کانِ نمک ، جہانِ شکر ۔ شیخ بحر و بر

آں کز شکر نمک کند داز نمک شکر

تیسری روایت اس طرح سے ہے کہ :

ایک دفعہ بابا صاحب نے اپنے پیر و مرشد حضرت قطب صاحب کے ارشاد کے مطابق تین دن کا روزہ رکھا ۔ تیسرے روز افطار کے وقت ایک شخص چند روٹیاں لایا۔ آپ نے غیبی امداد سمجھ کر ان سے روزہ افطار کر لیا۔ لیکن فوراًبا ہی متلی ہونے لگی اور جو کچھ کھایا تھا قے کے ذریعے نکل گیا۔

تھوڑی دیر بعد پیر و مرشد کی خدمت میں پہنچ کر یہ واقعہ عرض کیا ۔ انہوں نے فرمایا وہ روٹیاں ایک شرابی جواری نے بھجوائی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تیرے معدے نے اسے قبول نہیں کیا ۔ اب تین روزے اور رکھو اور جو غیب سے میسر آئے اس سے افطار کرو۔

بابا صاحب نے تین دن کا روزہ رکھا ۔ لیکن تیسرے روز افطار کے وقت کچھ میسر نہ آیا ۔ رات کو بھوک نے بہت ستایا تو بابا صاحب نے چند کنکریاں اٹھا کر منہ میں رکھ لیں ۔ اللہ کی قدرت کہ وہ کنکریاں منہ میں جاتے ہی شکر بن گئیں۔ بابا صاحب نے یہ واقعہ اپنے مرشد کریم کی خدمت میں بیان کیا تو انہوں نے فرمایا:

“سبحان اللہ ، یہی غیب سے تھا ۔ ان شا اللہ تو شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہے گا اور گنج شکر کہلائے گا”

جعفر قاسمی نے اس ضمن میں بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ حضرت بابا صاحب کو گنجِ شکر اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا مزاج بہت میٹھا تھا۔

مسندِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بابا صاحب پیر و مرشد کی اجازت سے ہانسی شریف تشریف لے گئے اور ہمہ وقت تبلیغ اسلام اور خدمت خلق میں مصروف رہنے لگے۔ آپ کو ہانسی میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ بیدار ہوتے ہی دہلی روانہ ہو گئے ۔

دہلی میں معلوم ہوا کہ پیر و مرشد نے وصال سے قبل اپنا خرقہ ، عصا، نعلین ، مصلی اور دیگر تبرکات حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیے اور وصیت کی کہ میرا جانشین فرید الدین مسعود ہو گا اور یہ سب تبرکات اسی کو دے دیے جائیں۔

بابا صاحب نے پیر و مرشد کے مزار اقدس پر حاضری دی ۔ بعد ازاں حضرت قظب صاحب کے سب خلفا اور ارباب صحبت جو دہلی میں موجود تھے جمع ہوئے اور سب نے حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطب عالم کا جانشین تسلیم کیا۔ اسی محفل میں تمام تبرکات بابا صاحب کے سپرد کیے گئے۔

دہلی میں بابا صاحب نے اپنے مرشد گرامی کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول رہتے اور صرف نماز جمعہ کے لیے حجرہ سے باہر تشریف لاتے۔ ایک جمعہ کو حجرہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک درویش باہر کھڑا ہے اس نے بابا صاحب کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا ” شیخ عالم ! ہانسی کے لوگ آپ کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں، کرم فرمائیے اور ہانسی کو پھر اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمائیے”

بابا صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ہانسی جانے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس سے لوگوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور انہوں نے آپ سے دہلی ہی میں قیام کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن بابا صاحب نے فرمایا:

“دہلی کی نسبت ہانسی کو میری زیادہ ضرورت ہے ۔ اس لیے میرا وہاں جانا ضروری ہے”

یہ سن کر لوگ خاموش ہو گئے اور بابا صاحب ہانسی تشریف لے گئے۔

ہانسی میں ایک مدت تک قیام فرما رہے ۔ وہاں کے لوگوں نے بابا صاحب کے وجود مسعود سے خوب خوب فیض اٹھایا ۔ شیخ جمال الدین ہانسوی عرصہ سے وہاں مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول تھے ۔ بابا صاحب نے اپنی باطنی توجہ سے انہیں درجہ کمال تک پہنچا دیا اور جب ہجوم خلق حد درجہ بڑھا تو شیخ جمال الدین ہانسوی کو اپنی سند خلافت دیکر انہیں ہانسی میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور خود اجودھن (پاک پتن ) کی طرف چل پڑے جہاں کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی مخلوق کا یہ علاقہ مدت سے باران رحمت کا منتظر تھا۔

بابا صاحب پاک پتن میں

ہانسی سے بابا صاحب کھتوال پہنچے اور اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں رہنے لگے ، لیکن خلقت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے ٹوٹی پڑتی تھی۔آپ طبعاً عزلت پسند تھے ۔ جب ہجوم خلق سے بیزار ہو گئے تو ایک روز والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر کھتوال سے چل پڑے ۔پھرتے پھراتے ایک غیر معروف قصبہ اجودھن میں پہنچے۔ اجودھن ان دنوں جنگلوں سے گھرا ہوا اور حشرات الارض کا دل پسند مسکن تھا۔ قصبہ کے اطراف میں دور دور تک کفار اور مشرکین کی بستیاں تھیں۔

بابا صاحب نے اپنے قیام کے لیے اس جگہ کو پسند فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شب خواب میں آپ کے مرشد گرامی حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ فرید! اس قصبہ میں مستقل طور پر اقامت اختیار کر لو اور مخلوق خدا کو راہ حق کی طرف بلاؤ۔

غرض اجودھن سے باہر مغرب کی سمت کریر کے ایک درخت کے نیچے بابا صاحب نے اپنا مصلی بچھایا اور یاد الٰہی میں مشغول ہو گئے۔

مخالفت

بابا صاحب کی شبانہ روز کوشش سے جب اجودھن کے در و دیوار قال اللہ و قال الرسول سے گونجنے لگے اور ہر طرف مسلمانوں کی چہل پہل ہو گئی تو بعض کوتاہ اندیش محض حسد و بعض کی وجہ سے بابا صاحب کی مخالفت کرنے لگے۔ ان مخالفوں میں سب سے پیش پیش اجودھن کی مسجد کا پیش امام اور قاضی تھا۔ جس نے پہلے تو حکومت کے کارندوں کو بابا صاحب کو ستانے پر اکسایا اور جب اس سے اس کا جی نہ بھرا تو بابا صاحب کے ذوق سماع پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگا۔

ادھر بابا صاحب کی وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ مخالفوں کی حرکات کو مطلق خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنا دل میلا نہ کرتے تھے۔بابا صاحب کی اس شانِ بے اعتنائی سے قاضی کا غصہ اور بھڑک اٹھا اور اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز کے مسلہ کی آڑ میں بابا صاحب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس نے ملتان کے علما سے آپ کے خلاف فتوی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایک خط میں علمائے ملتان سے استفسار کیا کہ ایک شخص جو اہل علم میں سے ہے ۔ قوالی سنتا ہے اور وجد کرتا ہے ۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

علمائے ملتان نے قاضی کو تحریر کیا کہ اس شخص کا نام لکھو۔ قاضی نے بابا صاحب کا نام لکھ بھیجا۔ علمائے ملتان نے حضرت کے خلاف فتوی جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا اور قاضی کو لکھا کہ تم نے ایک ایسے درویش خدا مست کا نام لکھا ہے جو تمام علوم شریعت کا منتہی ہے ۔ ہماری کیا مجال کہ اس کے قول و فعل پر اعتراض کریں۔

قاضی کا یہ حربہ ناکام ہوا تو اس نے ایک آوارہ گرد لالچی قلندر کو بابا صاحب کے قتل پر آمادہ کیا۔ یہ شخص کپڑوں کے نیچے اپنی کمر میں ایک تیز دھار چھرا چھپا کر آپ کے آستانے پر پہنچا۔ بابا صاحب اس وقت عبادت میں مشغول تھے اور سجدہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ صرف سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پاس موجود تھے۔ بابا صاحب نے حالت سجدہ ہی میں فرمایا:

“یہاں کوئی موجود ہے”

حضرت سلطان المشائخ نے جواب دیا:

“آپ کا غلام نظام الدین حاضر ہے”

بابا صاحب نے فرمایا: یہاں ایک قلندر کھڑا ہے جو کانوں میں سفید رنگ کے مندرے پہنے ہوئے ہے۔

سلطان المشائخ نے اثبات میں جواب دیا تو بابا صاحب نے فرمایا:

“اس شخص کی کمر کے ساتھ چھرا بندھا ہے اور یہ میرے قتل کے ارادے سے آیا ہے اور اس سے کہہ دو کہ اپنی عاقبت خراب نہ کرئے اور یہاں سے چلا جائے”

اس سوال و جواب سے قلندر پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ اٹھا اور سیدھا قاضی کے پاس جا کر دم لیا اور اسے کہا : ” ایسے مرد خدا کو قتل کرنا میرے بس میں نہیں”

اب قاضی نے ایک پٹواری کو اکسایا ۔ جس نے بابا صاحب کے فرزندوں کو ناحق ستانا شروع کیا۔ جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو صاحبزادوں نے بابا صاحب سے فریاد کی بابا صاحب جلال میں آ گئے اور اپنا عصا زور سے زمین پر پٹکا اور فرمایا :

“اب وہ تمہیں تنگ نہیں کرے گا”

اسی وقت ظالم پٹواری کے پیٹ میں درد اٹھا ۔ اسے بابا صاحب کے فرزندوں پر اپنی زیادتیاں یاد آئیں۔ اس نے لوگوں سے کہا ، مجھے بابا صاحب کی خدمت میں لے چلو لوگ اسے چارپائی پر ڈال کر بابا صاحب کی خدمت میں لا رہے تھے کہ راستے ہی میں اس کا انتقال ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلاف قاضی کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا اور رفتہ رفتہ آپ کے تمام دشمن اور حاسد خائب و خاسر ہو کر بیٹھ گئے۔

مریدوں کی تربیت

ایک روز مولانا جمال الدین ہانسوی جنگل سے ڈیلے اور مولانا بدر الدین اسحاق لکڑیاں لائے۔ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا نے انکو ابالنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔ اتفاق سے اس روز لنگر خانے میں نمک موجود نہ تھا۔ سلطان المشائخ بازار جا کر بقال سے نمک قرض لائے اور ڈیلوں میں ڈالا۔ جس وقت دسترخوان بچھایا گیا اور سب فقرا جمع ہو گئے، تو دعا پڑھنے کے بعد حضرت بابا صاحب نے لقمہ اٹھایا مگر فوراً ہی واپس رکھ دیا اور فرمایا :

“لقمہ گراں ہے ، کوئی شبہ والی بات معلوم ہوتی ہے”

یہ سن کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کھڑے ہو گئے اور عرض کیا : حضور ! لکڑیاں تو حضرت مولانا سید بدر الدین اسحاق لائے ہیں اور ڈیلے مولانا جمال الدین لائے ہیں ، پانی مولانا حسام الدین نے بھرا ہے اور ان کو جوش میں نے دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لقمہ کس سبب سے گراں ہے۔

حضرت بابا صاحب نے ایک لمحہ تامل کے بعد فرمایا:

“نمک کہاں سے آیا؟”

اتنا سننا تھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا حیران رہ گئے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:

حضور کی ذات کاشفِ حالات ہے ۔ یہ خطا مجھ سے سرزد ہوئی ہے ۔ یہ ڈیلے کڑوے کسیلے ہوتے ہیں ، اگر ان میں نمک نہ ہو تو پھر یہ کیسے کھائے جائیں گے ۔ محض اس خیال سے میں نے اس میں نمک قرض لے کر ڈال دیا ہے۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا: اچھا اب اس کھانے کو دوسرے فقرا میں تقسیم کر دو اور پھر فرمایا: “نظام الدین! درویشاں اگر بفاقہ بمیرند برائے لذت نفس قرض نہ گیرند”

حضرت سلطان المشائخ نے اسی وقت دل میں عہد کیا کہ آئندہ تمام عمر قرض نہیں لوں گا۔ بابا صاحب نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا : ان شاء اللہ آئندہ تم کو قرض لینے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔

تنگ دستی کا علاج

حضرت بابا صاحب کے پاس کوئی شخص دینی یا دنیاوی مشکل لے کر آتا تو وہ اسے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے۔ عام طور پر صبر کی تلقین فرماتے اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرماتے۔ ایک روز ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی کہ یا حضرت! میں بیحد تنگ دست ہوں۔ گھر میں عام طور فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے۔ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسے ہدایت کی کہ ہر روز رات کو سنے سے پہلے سورہ جمعہ بڑھ لیا کرو۔

بلبن کے نام خط

ایک بار پاک پتن میں کوئی ضرورت مند بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : حضور! بادشاہ کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیجیے تاکہ میرا کام بن جائے ۔آپ نے فرمایا کہ کام کرنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں ۔ اس نے خط لکھنے کے لیے اصرار کیا تو حضرت بابا صاحب نے سلطان بلبن کے نام یہ خط لکھ کر دے دیا

میں نے اس شخص کی ضرورت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا ۔ پھر تیرے پاس بھیج دیا۔ اگر تو اس کو کچھ دے گا تو دَین اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور یہ تیرا شکر گزار ہو گا اور اگر کچھ نہ دے گا تو روک اللہ کی طرف سے ہو گی اور تو معذور سمجھا جائے گا۔

غوث بہاوالحق سے تعلق

حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا صاحب کے درمیان بہت محبت تھی ۔ بابا صاحب جب بھی انہیں خط تحریر فرماتے تو شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی لکھتے ۔ ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا آپ جب بھی حضرت کا نام لیتے ہیں تو شیخ الاسلام ضرور کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے لوح محفوظ پر ان کے نام نامی کے ساتھ شیخ الاسلام لکھا ہوا دیکھا ہے

(سیر الاولیا ص 82)

ایک دفعہ حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی نے بابا صاحب کو خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ میرے تمہارے درمیان عشق بازی ہے۔ بابا صاحب نے جواب میں لکھا کہ میرے اور آپ کے درمیان عشق تو ہے مگر بازی نہیں ہے

(سیر العارفین ص 54)

بزرگوں کی روش

حضرت شیخ بدر الدین غزنوی آپ کے پیر بھائی تھے۔ دہلی میں ملک نظام الدین خریطہ دار نے ان کے لیے ایک خانقاہ بنوا دی تھی جہاں ان کے آرام و آسائش کا سارا سامان بہم پہنچایا تھا۔ ایک دفعہ ملک نظام الدین زر کثیر کے غبن میں ماخوذ ہوا جس سے شیخ بدر الدین کے آرام میں بھی خلل پڑنا شروع ہوا۔ ان حالات میں انہوں نے بابا صاحب کی خدمت میں درد بھرا خط لکھا اور سارے حالات بیان کیے اور دعا کی درخواست کی

فرید الدین و ملت یار زیرک

کہ بادش در کرامت زندگانی

دریغا خاطرم گر جمع داری

بمدحش کردمے گوہر فشانی​

بابا صاحب نے یہ خط پڑھا تو جواب میں تحریر فرمایا:

” عزیز الوجود کا رقعہ ملا اور جو کچھ اس میں درج تھا ، اس سے آگاہی ہوئی۔ جو کوئی اپنے بزرگوں کی روش پر نہ چلے گا ، ضرور ہے کہ اسے اس طرح کا ماجرا پیش آئے اور وہ غم و الم سے دوچار ہو۔ آخر ہمارے پیران عظام میں سے کون تھا جس نے اپنے لیے خانقاہ بنوائی اور اس میں جلوس فرمایا ” ( سیر العارفین ص) 51

ذوق سماع

ایک روز حضرت بابا صاحب کو سماع کا ذوق ہوا۔ اتفاق سے اس وقت کوئی قوال موجود نہ تھا۔ آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ وہ خط جو قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھیجا ہے ، لاؤ اور سناؤ ۔ مولانا کھڑے ہوئے اور خط پڑھنا شروع کیا۔ اس میں حمد و نعت کے بعد تحریر تھا :

فقیر ، حقیر ، نحیف ، ضعیف ، بندہ درویشاں در دیدہ خاکپائے ایشاں محمد عطا المعروف حمید الدین ناگوری۔

اتنا سننا تھا کہ بابا صاحب پر کیفیت طاری ہو گئی اور مولانا نے خط کی یہ رباعی پڑھی تو بابا صاحب پر وجد طاری ہو گیا:

آں عقل کجا کی در کمالے تو رسد

آّں روح کجا کی در جلال تو رسد

گیرم کہ پردہ گرفتی زجمال

آں دیدہ کجا کہ در جمال تو رسد​

اسی طرح ایک روز آپ کو ذوق سماع ہوا اور آپ کی زبان پر مولانا نظامی کا یہ شعر آیا

نظامی آنچہ اسرار است کز خاطر عیاں کر دی

کسے سرّش نمیداند زباب در کش زباں در کش​

اس شعر کو آپ تمام دن پڑھتے رہے ، پھر رات کو بھی یہی حال رہا اور دوسرے دن بھی۔

ایک روز سماع کی حرمت و حلت پر گفتگو ہو رہی تھی تو فرمایا : سبحان اللہ ! کوئی جل کر راکھ ہو جائے اور دوسرے ابھی اختلاف ہی میں ہوں۔

ایک بار فرمایا : سماع انہی لوگوں کے لیے جائز ہے جو اس میں ایسے مستغرق ہوں کہ ایک لاکھ تلواریں ان کے سر پر ماری جائیں یا ایک ہزار فرشتے ان کے کان میں کچھ کہیں تو بھی ان کو خبر نہ ہو۔

وصال

ذوالحجہ 663 ہجری کے آخری دنوں میں بیماری نے شدت اختیار کی اور آپ کو بے ہوشی کے دورے ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کی کوئی نماز حتی کہ نفلی عبادت تک قضا نہ ہوئی اور وظائف و اوراد بھی وقت پر ادا ہوتے رہے۔ محرم 664 ہجری کی چار تاریخ کو دہلی سے آپ کے مخلص قدیم سید محمد کرمان پرسش احوال کے لیے پاک پتن آئے۔ حضرت بابا صاحب اس وقت حجرہ میں تھے اور دروازہ بند تھا۔ باہر صاحبزادگان اور چند مرید آپ کی جانشینی کے متعلق سرگوشیاں کر رہے تھے۔ جیسے ہی ان حضرات نے سید محمد کرمان کو دیکھا تو کہا : اس وقت اندر نہ جانا ، حضرت کی طبیعت ناساز ہے ۔ سید صاحب باہر بیٹھے سوچتے رہے کہ میں دہلی سے چل کر آیا ہوں ، اگر یہ لوگ مجھے حضور کی قدم بوسی کر لینے دیں تو کیا حرج ہے آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ حجرے میں داخل ہو گئے اور بابا صاحب کے قدموں پر سر رکھ دیا ۔ آپ نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا:

” سید کیا حال ہے ”

عرض کیا : حضور کی دعا سے اچھا ہوں ، ابھی حاضر ہوا ہوں۔ اس کے بعد سید صاحب نے دہلی کے علما و مشائخ کے سلام عرض کیے ۔ آخر میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا سلام عرض کیا۔ جیسے ہی بابا صاحب نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا نام سنا تو خوش ہو کر پوچھا:

ان کا کیا حال ہے؟

عرض کیا: وہ ہر وقت حضور کی یاد میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر بابا صاحب اور خوش ہوئے اور مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ جو تبرکات مجھے سلسلہ بہ سلسلہ اپنے حضرت سے پہنچے ہیں وہ نظام الدین محمد بدایونی کا حق ہے ، انکو پہنچا دینا۔

بعد ازاں نماز مغرب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ عشاء کی نماز آپ نے جماعت سے ادا کی ، پھر بے ہوش ہو گئے ۔ ہوش میں آنے کے بعد آپ نے سوال کیا : میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کی گئی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا :

ایک مرتبہ پھر پڑھ لوں۔ دوبارہ نماز عشاء ادا کی تو پھر بے ہوش ہو گئے۔ ہوش میں آنے پر پھر یہ سوال کیا ۔ کہا گیا: آپ دو مرتبہ عشاء کی نماز ادا پڑھ چکے ہیں ، فرمایا: ایک دفعہ اور پڑھ لوں ، ممکن ہے پھر موقع نہ ملے۔ یہ فرما کر آپ نے عشاء کی نماز مع وتر ادا کی اور پھر تازہ وضو کیا۔ اس کے بعد سجدہ کیا اورسجدہ ہی میں ایک مرتبہ زور سے یا حیُ یا قیوم کہا اور جاں جان آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔

وصال سے چند منٹ پہلے پوچھا : نظام الدین دہلی سے آئے یا نہیں؟ کہا گیا ، جی نہیں۔ فرمایا کہ میں بھی اپنے شیخ کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھا ، ہانسی میں تھا۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کو اطلاع ہوئی تو وہ پاک پتن آئے ۔ حضرت بابا صاحب کا مزار شریف تعمیر کرایا اور اس اہتمام سے کہ ہر اینٹ پر ایک قرآن شریف ختم کیا۔

معمولات

بابا صاحب کا معمول تھا کہ وہ آنے والوں کی سہولت کے لیے اپنی خانقاہ آدھی رات تک کھلی رکھتے تھے۔ رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی عبادت اور مراقبے میں مشغول رہتے تھے۔ طہارت و صفائی ان کی فطرت ثانیہ تھی ۔ ہر روز غسل فرماتے۔

صبح عبادت کے بعد دو گھنٹے تک طویل سجدہ کرتے اور اس دوران میں کبھی چپ چاپ دعا مانگتے اور کبھی اپنے خالق و مالک کی حمد و ثنا میں اشعار پڑھتے۔ کبھی تمام مخلوق کے لیے رحمت و بخشش کی دعائیں مانگتے اور بے حد گریہ و زاری کرتے۔ اس کے بعد دوپہر تک آنے والوں سے ملاقات کرتے ۔ پھر مختصر سےقیلولے کے بعد نماز ظہر ادا کرتے اور اس کے بعد خانقاہ کے مکینوں کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتے۔ ہر ایک سے اس کی خیریت دریافت فرماتے اور کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو فوراََ دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ہر آنے والا ان تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔

مقام رضا

زہد و ریاضت میں بابا صاحب کی مثال نہ تھی۔ عمر کے آخری ایام میں اکثر فرمایا کرتے تھے: چالیس برس تک اللہ کے بندے مسعود نے اپنے آقا و مولیٰ کی اطاعت کی اب گذشتہ چند برسوں سے یہ حال ہے کہ آقا کی ذرہ نوازی سے مسعود کے فکر و خیال میں جو کچھ آیا ، وہ حقیقت ثابت ہوا اور مسعود نے جو بھی آرزو کی وہ پوری ہوئی۔

بابا صاحب کے خلفاء

حضرت کے بے شمار خلفا تھے جن کا مکمل رجسٹر حضرت جمال الدین ہانسوی کے پاس تھا۔ بعض خلفا کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :

1.حضرت خواجہ قطب شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ

2۔ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ

3۔ حضرت مخدوم علاوالدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ

4۔ حضرت شیخ بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ

5۔ حضرت نصیر الدین متبنیٰ رحمۃ اللہ علیہ

6۔ حضرت بدر الدین سلیمان رحمۃ اللہ علیہ

7۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ