حضرت امیر معاویہؓ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 20, 2017 | 07:15 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): آپؓ اسلامی بحری بیڑے کے موجد تھے اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کی  تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار ،کارناموں ،فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ آپؓ کی ہمشیرہ حضرت امّ حبیبہ ؓ کو حضور اکرمؐ کی زوجہ اور اُمّ المومنین ہونیکا شرف بھی حاصل ہے

آپؓؓ کا دور فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دورِ حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے

حضرت امیر معاویہؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں

جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کیساتھ ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے موجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔آپؓ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار ، کارناموں ، فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ آپؓ کی بہن حضرت امّ حبیبہ ؓ کو حضور اکرمؐ کی زوجہ محترمہ اور اُمّ المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپؓؓکے بارے میں حضور ؐنے فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ ان پر نورِ ایمان کی چادر ہوگی‘‘۔ (کنزالعمال)ایک اور موقعہ پر حضورؐنے فرمایا کہ ’’اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا‘‘۔ (جامع ترمذی) حضورؐنے ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ ’’معاویہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں‘‘۔ (تطہیر الجنان ص 12) امیر معاویہؓ سروقد، لحیم و شحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹی، گھنی داڑھی، وضع قطع، چال، ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فروتنی، حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی۔ مشہور روایت کے مطابق آپؓ فتح مکہ کے موقعہ پر اسلام لائے۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورؐ نے مبارکباد دی اور ’’مرحبا‘‘ فرمایا (البدایہ والنہایہ 117/8)حضور ؐ چونکہ امیر معاویہؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لیے انہیں اپنے خاص قرب سے نوازا۔ فتح مکہ کے بعد آپؓ حضور ؐ کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضور ؐ کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔ قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ’’کتابت وحی‘‘ ہے۔ حضور ؐ نے جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ’’کاتبین وحی‘‘ تھے ان میں آپؓ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ حضورؐ اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ)آپؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کیساتھ ساتھ حضور ؐ کے خطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ آپؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفر و حضر میں بھی خدمت کا موقعہ تلاش کرتے… چنانچہ ایک بار حضورؐ سفر پر روانہ ہوئے تو آپؓؓ خدمت کیلئے پیچھے پیچھے ساتھ ہو لئے۔ راستے میں حضورؐ کو وضو کی حاجت ہوئی، پیچھے مڑے تو دیکھا۔ آپؓ پانی کا برتن لیے کھڑے ہیں نبی کریم ؐ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے۔ ’’معاویہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں سے درگزر کرنا۔‘‘ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضور ؐ کی پیشین گوئی صادق آئے گی اور میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیفہ ہو کر رہوں گا۔ علامہ اکبر نجیب آبادی ’’تاریخ اسلام‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ حضور ؐ نے اپنے باہر سے آ ئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام آپؓ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضور ؐکی وفات کے بعد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں آپؓ نے مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کیخلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سرانجام دئیے۔ عرب نقاد رضوی لکھتے ہیں کہ آپؓ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر پھر بھی اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی سے پیچھے نہ تھے ۔ایک روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت معاویہؓ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں بھی آپؓ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے۔ جنگ یرموک میں آپؓ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے ۔ یہ وہ واحد جنگ تھی جس میں آ پ ؓ کے پورے خاندان نے حصہ لیا۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں بھی آپؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے۔ آپؓ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کیا۔ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد آپؓ یہ چاہتے تھے کہ اسلام جو کہ آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے ’’فتح قبرص‘‘ کی خواہش آپؓ کے دل میں مچل رہی تھی ۔یورپ و افریقہ پر حملے اور فتح کیلئے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔ ’’بحر روم‘‘ میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا قریبی خطرہ تھا ۔اسے فتح کئے بغیر شام و مصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ رومی اکثر مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے حضرت عثمان غنیؓ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد آپؓ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور بحری مہم کا اعلان کر دیا، جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔ 28ھ میں آپؓ اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ ’’بحر روم‘‘ میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی ۔ بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر آپؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً 500کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص (سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص (سائپرس) کو فتح کر لیا۔ آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ ، حضرت ابوذر غفاریؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد بن اوسؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ شریک ہوئے۔اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جذبے سے حصہ لیا لیکن بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ حضور ؐ نے ’’اُمّ حرام‘‘ والی حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جنگ کرے گا۔پہلی بشارت حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی اور دوسری بشارت امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کر کے جنگ لڑی۔ شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرامؓ و تابعین دنیا کے گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچ کر اس لشکر میں شریک ہوئے ۔ آپؓ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دورِ حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑدئیے۔ اس کیساتھ ساتھ آپؓ نے خلفائے راشدین ؓکے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر ان کو فروغ دیا۔

(1) آپؓنے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔

(2) سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی سب سے زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔

(3) آبپاشی اور آب نوشی کیلئے دورِ اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔

(4) ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔

(5) سب سے پہلے احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

(6) آپؓ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپؓ نے پرانے غلاف کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا

(7) خط دیوانی ایجاد کیا اور رقوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔

(8) انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔

(9) دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔

(10 بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک و نفع کے جاری کر کے تجارت و صنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔

(11) سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔

(12) آپؓ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا

تاریخ اسلام از اکبر شاہ خان نجیب آبادی حضرت امیر معاویہؓ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص، علم و فضل، فقہ و اجتہاد، تقریر و خطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی و سخاوت، اصابت رائے، عفو و درگزر، اطاعت الٰہی، اطاعت رسول ؐ، اتباع سنت، جوش قبول حق تحمل و بردباری، تقویٰ اور خوف الٰہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ ؓنے اپنی وفات سے قبل گھر والوں کو دیگر وصیتوں کے ساتھ یہ وصیت بھی فرمائی کہ’’ ایک مرتبہ میں سفر میں حضور ؐکے ساتھ تھا رسول کریم ؐ ؐنے دیکھا کہ میرا کرتہ کاندھے سے پھٹا ہوا تھا آپ ؐ نے مجھے اپنا کرتہ (قمیص) مبارک عنایت فرمایا، وہ میں نے وہ کرتہ ایک مرتبہ سے زیادہ نہیں پہنا وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ ایک دن حضور ؐ نے بال اور ناخن ترشوائے میں نے تھوڑے سے بال اور تراشے ہوئے ناخن لے لیے تھے وہ بھی میرے پاس محفوظ ہیں… دیکھو! جب میں مرجائوں تو غسل دینے کے بعد یہ ناخن اور بال میری آنکھوں کے حلقوں، نتھنوں اور سجدے کے مقامات پر رکھ دینا اور پھر حضور ؐکا عنایت کردہ کرتہ مبارک میرے سینہ پر رکھنا اور اس پر کفن پہنانا… مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور ؐ کی ان چیزوں کی برکت سے میری مغفرت فرما دیں گے…‘‘ ان وصیتوں کے بعد 22 رجب المرجب 60ھ میںآپؓ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیسؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ ؓ کو دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیا گیا۔

٭…٭…٭ -