ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 02, 2017 | 16:08 شام

آپ کے بارے میں چند اہم باتیں

لاہور(مہرماہ رپورٹ):ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ "ﺍﺧﻨﻮﺥ" ﺍﻭﺭ "ﺍﺩﺭﯾﺲ" ﺁﭘﮑﺎ ﻟﻘﺐ ہے... ﺁﭖ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ پہلے ﻧﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﻬﻮﮞ ﻧﮯ ﻫﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ پہلے ﺳﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ_ﺍﻥ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻦ ﮈﮬﺎﻧﭙﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ_ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺼﺐ ﻧﺎﻣﻪ ﯾﻮﮞ ﻫﮯ: "ﺍﺧﻨﻮﺥ ﺑﻦ ﯾﺎﺭﺩ ﺑﻦ ﻣﻬﻼﺋﯿﻞ ﺑﻦ ﻗﯿﻨﺎﻥ ﺑﻦ ﺍﻧﻮﺵ ﺑﻦ ﺷﯿﺚ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ" ﺁﭘﮑﯽ ﺟﺎﮰ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻣﺼﺮ ہے،ﻟﻮﮒ ﺍﻧﻬﯿﮟ "ﮬﺮﻣﺲ ﺍﻟﮭﺮﺍﻣﺴۃ" کہتے ﺗﮭﮯ_ﯾﻪ ﺳﺮﯾﺎ

ﻧﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻫﮯ_ ﻫﺮﻣﻮﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ"ﺗﺠﺮﺑﻪ ﮐﺎﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺭﺍﮰ ﻭﺍﻻ"ﻫﮯ_ ﻣﺼﺮ ﻣﯿﮟ"ﻣﻨﻔﯿﺲ"شہر ﯾﻌﻨﯽ"ﻣﻨﻒ"ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ہوﺋﯽ ﺑﻌﺾ ﺍہل ﻋﻠﻢ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ہیں ﮐﻪ ﺁﭖ"ﺑﺎﺑﻞ"ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ہوﮰ ﺗﮭﮯ،ہجرﺕ ﮐﺮﮐﮯ ﻣﺼﺮ پہنچے_ﺟﺐ ﺍﻧﻬﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﮰ ﻧﯿﻞ ﮐﻮ دیکھا ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ"ﺑﺎﺑﻠﯿﻮﻥ" (ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ ﺑﮍﺍ ﺩﺭﯾﺎ)_ ﺍﻧﻬﯿﮟ ﺻﺪﯾﻖ ﻧﺒﯽ کہا ﮔﯿﺎ ﺟﺒﮑﻪ ﺁﭖ ﺣﮑﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ہوﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻠﻢ ﻧﺠﻮﻡ ﮐﯽ ﮐﮭﻮﺝ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮭﯽ پہلے ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ_ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﺳﮯ جہاﺩ ﮐﯿﺎ_ﺍﻭﺭ ﮐﻢ ﻭ ﺑﯿﺶ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺍﺳﯽ شہر ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺌﮯ_ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻧﺒﯽ ﻣﮑﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ_ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻮﺡ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﺪ ﺍﻣﺠﺪ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﺩﺍﺩﺍ کہا ﮔﯿﺎ ہے _ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻣﺮﺗﺒﻪ ﺁﭘﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﺎﻣﯽ ﺍﺳﻢ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺁﯾﺎ ﻫﮯ_ ﺭﺏ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ہے: "ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ،ﺍﺩﺭﯾﺲ ﺍﻭﺭ ﺫﻭﺍﻟﮑﻔﻞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺠﺌﮯ_ﯾﻪ ﺳﺐ ﺻﺎﺑﺮ ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ_ہم ﻧﮯ ﺍﻧﻬﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﺑﻼﺷﺒﻪ ﯾﻪ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ_"

(ﺳﻮﺭۃ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ ﺁﯾﻪ ۸۵،۸۶)

"ﺍﺱ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﺘﺎﺏ (ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ )ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﺑﻼﺷﺒﻪ ﻭﻩ ﺍنتہاﺋﯽ ﺳﭽﮯ ﻧﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ہم ﻧﮯ ﺍﻧﮑﻮ ﺑﻠﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ_" (ﺳﻮﺭۃﺍﻟﻤﺮﯾﻢ:ﺁﯾﻪ ۵۶،۵۷) ﺳﻦ ﺷﻌﻮﺭ ﮐﻮ پہنچ ﮐﺮ ﻧﺒﻮﺕ ﺳﮯ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ہوﻧﮯ ﭘﺮ ﺁﺩﻡ ﻭ ﺷﯿﺚ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺟﺒﮑﻪ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺩﺳﺘۂ ﻣﺸﺮﻑ ﺑﻪ ﺍﺳﻼﻡ ﻟﯿﮑﺮ ﻭﻃﻦ ﮐﯽ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺻﺪﻣﻪ ﻟﺌﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﻭﺳﯿﻊ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺑﺎﺑﻞ،ﺣﻤﺺ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ہجرﺕ ﮐﯽ_ﺩﺭﯾﺎﮰ ﻧﯿﻞ ﮐﻮ"ﺑﺎﺑﻠﯿﻮﻥ"کہنے ﭘﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﯾﻬﯽ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ_"ﺗﺎﻫﻢ ﻋﺮﺏ ﺑﺎﺳﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺼﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﻪ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﻧﻮﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺼﺮ ﺑﻦ ﺣﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﺴﮑﻦ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ_ﺍﻧﻬﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻗﻄﺎﻉ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﭼﺎﺭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ تقسیم ﮐﺮﮐﮯ ہر ﺣﺼﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﺍﯾﮏ ﺣﺎﮐﻢ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ_ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺍﻟﻬﯽ،ﺍﯾﺎﻡ ﺑﯿﺾ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮮ،جہاﺩ،ﺯﮐﻮۃ، طہاﺭﺕ،ﮐﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺆﺭ ﺳﮯ ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﻧﺸﻪ ﺁﻭﺭ ﺍﺷﯿﺎﺀ  ﭘﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﺍﻫﻢ ﻧﮑﺎﺕ ﺗﮭﮯ_ﻭﻩ ﺍﮐﻨﺎﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﯽ ﺳﯿﺮﻭﺗﺒﻠﯿﻎ ﺳﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ_ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺩﻩ ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎہوﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻘﻠﯿﻮﺱ بہت ﭘﺨﺘﻪ ﻋﺰﻡ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﻩ ﺍﺱ ﺧﻄﮯ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﻧﻮﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺋﯿﻮﻧﺎ(ﯾﻮﻧﺎﻥ) کہلاﯾﺎ_ﺩﯾﮕﺮ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﻼﻭﺱ(ﺑﻤﻌﻨﯽ ﺭﺣﯿﻢ)،ﺯﻭﺱ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺱ ﺍﻣﻮﻥ ﺗﮭﮯ_" (ﻗﺼﺺ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺍﺯ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻔﻆ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺳﯿﻮﻫﺎﺭﻭﯼ) "ﻭﺭﻓﻌﻨﻪ ﻣﮑﺎﻧﺎ ﻋﻠﯿﺎ" ﮐﻮ ﻟﯿﮑﺮ ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ﮐﺎ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺭﻓﻌﺖ ﻣﮑﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺁﭘﮑﯽ ﻣﺮﺗﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﻩ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﻫﮯ ﺟﻮ ﻧﺒﻮﺕ ﺳﮯ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﻫﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻞ ﭘﺮ ﺁﭘﮑﻮ ﻋﻄﺎﺀ ﻫﻮﺋﯽ_ ﺟﺒﮑﻪ ﺍﯾﮏ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻋﺰﺭﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺷﻨﺎﺳﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﺘﺎ ﻫﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ کہہ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻠﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮈﻟﻮﺍﺋﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺳﯿﺮ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﻫﯿﮟ ﺭﻩ ﮔﺌﮯ... ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺼﻮﺍﺏ ﺍﺳﯽ ﻣﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ﻧﮯ "ﺭﻓﻊ ﺍﻟﯽ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ" ﮐﺎ مفہوﻡ ﯾﻪ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯿﻄﺮﺡ ﺍﻧﻬﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ_ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺱ مفہوﻡ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺻﺮﯾﺢ نہیں ﻫﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﯾﻪ ﺑﯿﺎﻥ نہیں ﻣﻠﺘﺎ_ ﺍﻟﺒﺘﻪ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﮰ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﻠﺘﺎ ﻫﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ مفہوﻡ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ نہیں_ﺍﮔﺮ ﮐﻠﯽ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﮰ ﺗﻮ ﻫﺮ ﻃﺒﻘۂ ﻓﮑﺮ ﮐﺎ ﻣﻔﺴﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺠﺘﻤﻊ ﻫﮯ ﮐﻪ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﻓﻌﺖ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﮐﮯ ﺷﺮﻑ ﮐﻮ کہا ﮔﯿﺎ_ ﭘﮭﺮ ﭼﺎہے "ﺍﺑﻮﺍﻟﮑﻼﻡ ﻫﻮﮞ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﮰ،ﺣﺎﻓﻆ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﯾﻮﺳﻒ ہوﮞ،ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻫﻮﮞ،ﺍﺷﺮﻑ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﮐﻪ ﭘﮭﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺴﺘﺎﺭ ﺩﻫﻠﻮﯼ ﺭحمتہ ﺍﻟﻠﻪ_ ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺼﻮﺍﺏ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ہجرﺕ ﻣﯿﮟ "ﻣﻤﻔﺲ" ﻣﺼﺮ ﮐﺎ ﻗﺪﯾﻢ شہر ﻫﮯ ﺟﻮ ﺩﺭﯾﺎﮰ ﻧﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﮭﺎ،ﺍﺳﮯ ہی ﺁﭖ ﻧﮯ"ﺑﺎﺑﻠﯿﻮﻥ"ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ_ﺍﺳﮑﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﯿﻨﺲ ﻧﮯ ۳۱۰۰ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﺒﮑﻪ ﺑﺎﻻﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺮﯾﮟ ﺳﻠﻄﻨﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺘﺤﺪ ﮐﯿﺎ_ ﺟﯿﺰﻩ ﮐﮯ ﻓﺮﻋﻮﻧﯽ ﺍﻫﺮﺍﻡ،ﺳﻘﺎﺭﻩ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮﻟﻬﻮﻝ ﮐﺎ مشہوﺭ ﺑﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﻫﮯ_ﯾﻪ ﻗﺎﻫﺮﻩ ﮐﮯ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﯿﺲ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻫﯿﮟ_ "ﺍﻟﺨﻠﯿﻞ"ﺍﺱ شہر ﮐﺎ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﻧﺎﻡ ﺣﺒﺮﻭﻥ ﺟﺒﮑﻪ ﻋﺒﺮﺍﻧﯽ ﺣﺒﺮﯼ ﯾﺎ ﺣﺒﺮﻭﻥ ﺭﺍﺋﺞ ﻫﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺳﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ۳۵ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﯿﮟ ﻫﮯ_ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ یہاں ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﺍنہی ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﺳﮯ ﯾﻪ شہر ﻣﻮﺳﻮﻡ ہوﺍ_ "یہاﮞ ﺍﯾﮏ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ،ﺍﺳﺤﻖ،یعقوﺏ،ﯾﻮﺳﻒ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﻫﯿﮟ_کہا ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻫﮯ_ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻭﺣﯽ ﺍلہیٰ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻗﺒﻪ ﻧﻤﺎ ﭼﮭﺖ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ_ ﺳﺎﺭﻩ ﺯﻭﺟﻪ ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ،ﺭﺑﻘﻪ ﺯﻭﺟﻪ ﺍﺳﺤﻖ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻠﯿﺎ ﺯﻭﺟﻪ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻫﯿﮟ_" (ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺒﻠﺪﺍﻥ) "ﺑﺎﺑﻞ"ﯾﻪ ﻣﯿﺴﻮﭘﻮﭨﯿﻤﯿﺎ(ﻋﺮﺍ ﻕ)ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻗﺪﯾﻢ شہر ﻫﮯ ﺟﻮ ﺩﻭ ﻫﺰﺍﺭ ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ شہرﺕ ﮐﻮ پہنچا ﺟﺐ یہاﮞ ﺣﻤﻮﺭﺍﺑﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ_ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺩﺍﺭﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺑﻨﺎﯾﺎ_یہی پہلا ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﻩ ﺍﯾﮏ ﺁﺋﯿﻦ ﻭﺿﻊ ﮐﺮﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﯿﺎ_ "ﺣﻤﺺ"ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﻗﺪﯾﻢ شہر ﺟﻮ ﺩﺍراﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺩﻣﺸﻖ ﺳﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﭘﺮ ﺷﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﮰ ﻋﺎﺻﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﻭﺍﻗﻊ ﻫﮯ...

قرآن مجید میں ذکر

قرآن مجید کی دو سورتوں میں آپ کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ مریم "سورہ مریم" آیتہ 55 میں خدا نے آپ کو سچا نبی کہا ہے۔ سورہ الانبیا آیتہ 86.85 میں اسماعیل اور ذوالکفل علیہ سلام کے ساتھ آپ کو بھی صبر والا اور نیک بخت کہا گیا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ کا نام ضوک تھا اور آپ یارد کے بیٹے تھے۔ آپ نے 365برس کی عمر پائی اور پھر مع جسم خاکی آسمان پر اٹھا لیے گئے ۔ حضرت ادریس کی شخصیت ، زمانے اور وطن کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لاۓ آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے سے پہلےآپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپ(ع) پر30 صحیفے نازل ہوۓ۔ آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گۓ تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ آپ پر ایمان لا‌ئے اس پر آپ نہایت تنگ آکر خود اور جو ایمان لاۓ انہیں لےکر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر آپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نےبابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس(ع) نے فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔'آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوۓ سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا ۔پھر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آۓ تھےبابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور قتح یاب ہوۓ اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا آپ کا اصل نام اخنوحتھا آپ کا لقب ادریس ہے آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کیونکہ دنیا میں آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کا درس دیا اسی بنا پر لوگ آپ کو ادریس یعنی درس دینے والا کہہ کر پکارنے لگے۔

دورِ نبوت

دورِ نبوت آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لاۓ آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے سے پہلےآپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپ(ع) پر30 صحیفے نازل ہوۓ۔ آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گۓ تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ آپ پر ایمان لا‌ئے اس پر آپ نہایت تنگ آکر خود اور جو ایمان لاۓ انہیں لےکر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر اپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نےبابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس(ع) نے فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔'آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوۓ سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا ۔پھر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آۓ تھےبابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور قتح یاب ہوۓ اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔۔۔۔ ادریس نام کا مطلب آپ کا اصل نام اخنوحتھا آپ کا لقب ادریس ہے آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کیونکہ دنیا میں آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کا درس دیا اسی بنا پر لوگ آپ کو ادریس یعنی درس دینے والا کہہ کر پکارنے لگے۔ قرآن میں آپ کا ذکر دو مرتبہ آیا ہے۔

آپ ؑ کا حلیہ

سورۃ مریم ایت 55،56،57 سورۃ الانبیاء ایت 85،86 حلیہ چند بزرگان دین نے آپ کا حلیہ بیان کیا ہے وہ درج ہے عمدہ اوصاف۔ پورا قد و قامت۔ خوبصورت۔ خوبرو۔ گھنی داڑھی۔ چوڑے کندھے۔ مضبوط ہڈیاں۔ دبلے پتلے۔ سنجیدہ۔ سرمگی چمکدار آنکھیں۔ گفتگو باوقار۔ خاموشی پسند۔ رستہ چلتے ہوۓ نظر نیچے۔ غصے میں غضب ناک بات کرتے ہوۓ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے عادی۔

وفات

آپ کی وفات سے کچھ دیر پہلے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اب سے آپ جتنی دیر زندہ رہیں گے دنیا میں جتنے انسان بھی کوئی نیکی کریں گے ان کا ادھا ثواب آپ کو جاۓ گا اس پر آپ بےحد خوش ہوۓ ۔ اتنے میں ایک فرشتے نے آپ کو آکر خبر دی کہ عزرائیل آپ کی روح قبض کرنے آرہے ہیں جس پر آپ حیران ہوگۓ اور اس فرشتے کے پروں پر بیٹھ کر اللہ سے ملنے چل پڑے آپ نے پہلا ، دوسرا اور تیسرا آسمان پار کر لیا اور جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو وہاں آپ کو عزرائیل ملے۔انہوں ے آپ سے پوچھا کہ آپ کہا جا رہے ہیں ۔جس پر آپ نے کہا اپنے اللہ سے اور زندگی مانگی جس پر اللہ نے منع کر دیا تو پھر آپ اتنی زندگی پر ہی راضی ہوگۓ اور پھر عزرائیل نے آپ سے آپ کی روح قبض کرنے کی اجازت لی ادریس(علیہ السلام) نے عزرائیل کو اجازت نہ دیتے ہوۓ اللہ سے دعا کی کہ آپ کی روح عزرائیل کی بجاۓ اللہ خود قبض کرے پھر اللہ نے خود ادریس(ع) کی روح قبض کی اور آپ کی خواہش پوری کی۔ پ نے 365 سال کی عمر پائی۔