اُم المومنینؓ کا قائدانہ کردار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 13, 2017 | 09:39 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ صائمہ اسماء): حضرت عائشہؓ کی سیرت کے تمام پہلو ہی ان کے قائدانہ کردار کے گواہ ہیں۔ آپ نے امت کو تعلیم دینے میں بلا تردد‘ پراعتماد ہوکر درست باتوں کی تائید فرمائی اور خاتون ہونے کے باوجود اصلاح امت کیلئے وعظ و نصیحت کا منصب سنبھالا۔ یہ سب پہلو آپ کو بلاشبہ امت کی قائد کے رتبے پر سرفراز کرتے ہیں۔ روایات کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت عائشہؓ کی معرفت ہم تک پہنچا۔ ان کی روایتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ جن احکام و واقعات کو وہ نقل کرتیں ان کی وجوہ کیلئے بھی وہ تشریح فرماتی تھیں۔

آپ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپ راویہ حدیث تو تھیں‘ ساتھ ہی مفسر قرآن بھی تھیں اور منصب افتاء پر فائز بھی۔ آپ کی یہ حیثیت دو لحاظ سے اہم ہے۔ ایک تو اس سے اسلام میں خاتون عالمہ‘ مفتی و مفسر کی وہی حیثیت ثابت ہوتی ہے جو کسی بھی مرد عالم‘ مفتی ومفسر کی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ عورتیں عورتوں کے معاملات اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں۔اس لئے ان سے واقعات کا روایت کیا جانا مستند مقام رکھتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ خاتون مفسر قرآن کی اتنی مضبوط اور تابندہ روایت کی حامل امت میں اس روایت نے ایسا دم توڑا کہ صدیوں کے اس سفر میں شاید ہی کوئی مفسر اور مفتی خاتون نظر آتی ہے۔ آج جب ہم مغرب کے زیراثر جدید ’’اسلامی فیمینزم‘‘ کے علمبرداروں کو ’’ خواتین میںقرآن کے مطالعہ‘‘  کا حوالہ پیش کرتے ہوئے پاتے ہیں تو دینی طبقات کے چھوڑے ہوئے خلا کو پر کرنے کیلئے ایسی خواتین قرآن کی تفاسیر بیان کرتی ہیں جن کی عملی زندگی ان کے کام کے شایان شان ہوتی ہے اور نہ عملی مقام قابل اطمینان ہوتا ہے۔ چنانچہ بے ساختہ یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہم نے عائشہ صدیقہؓ جیسے کردار کیوں پیدا نہیں کیے‘ جو عورتوں کے مقام ومرتبہ کے لئے اتنی حساس تھیں کہ روایت میں ذرا سی بھول یا تفسیر میں کوئی ایسا خلا نہ چھوڑتی تھیں جو عورت کی حیثیت کو اللہ اور رسولؐ کی منشا کے خلاف کمزور کرتا ہو۔ جن کی اپنے دور کے حالات پر بھی پوری گرفت تھی، علوم و فنون پر بھی اور قرآن وحدیث کی بھی اللہ کے رسولؐ نے انہی فضیلت عطا کی۔

واقعہ افک کا پیش آنا رسول اللہؐ آپ کے اہل بیت اور تمام مومنین کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت تھا مگر سب سے زیادہ یہ مرحلہ عائشہ صدیقہؓ کے لئے کڑا اور زہرہ گداز تھا کیونکہ آپ کی ذات اس واقعے کا مرکزی نکتہ تھی۔ آپ پر اپنی ذات کی بدنامی کا بار بھی تھا‘ اللہ کے نبیؐ کی حیثیت پر اس واقعے کے ممکنہ اثرات کا احساس بھی اور مومنین کے لئے کفار ومنافقین کے طنز واستہزا کا ذمہ بھی۔ گویا آپ بیٹھے بٹھانے اپنی تمام تر معصومیت اور بے خبری کے باوجود تہمت کی زد میں آ گئی تھیں اور فتنہ اتنا شدید تھا کہ کوئی آپ کی بے گناہی پر صاد کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ عزیز ترین ماں باپ سر جھکائے خاموش تھے اور سب سے بڑھ کر وہ محبوب ہستی جن کی محبت آپ کیلئے دنیا وآخرت کی سب سے قیمتی متاع تھی‘ جن کے دیے ہوئی شفقت نے آپ کو سر اٹھا کر جینے کا شعور بخشا تھا‘ جن کی نظر التفات سے آپ کی رگ حیات جڑی تھی۔ جن کے روئے مبارک نے آپ کو حیات کا عنوان دیا تھا وہ ہستی آپ کے بارے میں خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ رسول اللہؐ منبر پر اپنی محبوب بیوی کی اچھی گواہی دیتے‘ مگر گھر میں غم سے نڈھال بیوی کے بستر کے پاس آکر نہ بیٹھتے۔ یہ بے التفاتی عائشہؓ کا سینہ کیسے کیسے نہ چھلنی کرتی ہوگی، اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے! آپ کو زمانے بھر کے الزامات اتنا دکھ نہ دیتے ہوں گے جتنا ان محبوب نگاہوں میں جھانکتی بے یقینی اور ان کا گریز تکلیف میں مبتلا کرتا ہوگا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’مجھے برابر روتے ہوئے دو راتیں اور ایک دن گزرا‘ نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی‘ یہاں تک کہ مجھے یہ گمان گزرنے لگا کہ اتنا رونے سے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔‘‘ اسی حالت میں تھیں کہ بالآخر اللہ کے نبیؐ تشریف لائے‘ والدین پہلے ہی دلجوئی کیلئے ہمہ وقت پاس موجود تھے‘ وہیں بیٹھے۔ آپؐ پر نزول وحی ہوا اور اللہ نے نہ صرف عائشہؓ کی برأت اپنی جناب سے نازل فرمائی بلکہ گروہ مومنین کیلئے تنبیہہ وانذار اور مجرموں کیلئے عذاب کی وعید بھی ساتھ بھیجی۔

جی ہاں! تاریخ اسلام ایسی عظیم خواتین سے عبارت ہے۔ یہ نمونے کے کردار تھے جو چشم فلک نے دوبارہ نہ دیکھے‘ مگر ان کی تابندہ سیرت رہتی دنیا تک بنی نوع انسان اور خاص کر عالم نسواں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ آج بگاڑ کے اس دور میں ہمیں ان کرداروں کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں سچی سرفرازی کی ضمانت ہیں۔