حضرت باقی باللہ رحمت اللہ علیہ کی نظر میں مراقبہ کا مطلب

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 18, 2017 | 10:11 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): حضرت باقی باللہ رحمت اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔
"حضور مراقبہ کسے کہتے ہیں؟"
آپ نے جواب میں ایک آسان طریقہ فرمایا:
آپ نے فرمایا: "محبوب کی آمد کے وقت سراپا انتظار میں رہنا ھی مراقبہ ہے"
پوچھا گیا کہ: "آپ کو یہ طریقہ کیسے ملا"؟
آپ نے فرمایا: "میں نے ایک مرتبہ بلّی کو شکار کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ جب بلّی شکار کے لئے تیار ہو جائے تو پھر وہ اپنے دو پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے، اور دو کو اٹھا لیتی ہے, اور سان

س روک لیتی ہے, وزن برابر کر لیتی ہے, نہ سانس کو حرکت دے، نہ مزاج میں جنبش آئے, نگاہ ایک مرکز پر رہتی ہے, جونہی شکار اس کی نظر میں آئے، چشمِ زدَن میں جھپٹ کر پکڑ لیتی ہے, تب یہ دیکھ کر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ دوعالم سے بے نیاز ہو کر، دو پاؤں پر وزن رکھ کر، سانس روک کر، اپنے شکار کے لئے اتنی منہمک ہو جاتی ہے, کہ ہر ایک سے بے نیاز ہو گئی, لہٰذا مجھے معلوم ہوا کہ دو عالم سے بے نیاز ہو کر اسی کا ہو کر رہنے کا نام انتظار ہے۔۔۔۔۔ (سبحان اللہ).
تو لہٰذا میں نے بھی مراقبہ سیکھ لیا, مراقبہ کرنا ہو تو آنکھ بند کرو، کیونکہ یہ ایک ایسا دروازہ ہے کہ ہر شئے اس میں سے اندر چلی جاتی ہے, پھر جو چیز اندر جائے گی مزاج بدلے گا, جیسی شئے نظر آئےگی خیال اس کے ساتھ ہو جائے گا, دل کے اس دروازے کو بند ہی کرو کہ کوئی شئے اندر ہی نہ آئے, اپنا سانس روک لو، مزاج قابو کرلو، اب یار کی آمد کا وقت ہے, دروازے پر نظر رکھو کب کُھلتا ہے کہ وہ اندر آجائے, ایسا نہ ہو کہ تمھیں غافل پا کر واپس چلا جائے, بہتر ہے کہ مراقبہ میں رہو.
چنانچہ صوفیاء مراقبہ ایسے ہی وقتوں پر کرتے ہیں کہ کوئی آواز دینے والا بھی نہ ہو, پچھلے پہر سر جُھکا کر بیٹھ جاتے ہیں, کہ تیری آمد کا وقت ہے.
اب تو آجا اب تو خِلوَت ہو گئی, ہر تمنّا دل سے رُخصت ہو گئی.۔۔۔۔۔۔