حیات حضرت الیاس علیہ السلام​

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 31, 2017 | 17:05 شام

لاہور(ترتیب مہرماہ)حضرت خضر علیہ السلام کی طرح حضرت الیاس علیہ السلام کی حیات کے بارے میں بھی مؤرخین اور مفسرین نے تفصیلی بحث کی ہے ۔تفسیر مظہری میں علامہ بغوی ؒ کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ "حضرت الیاس علیہ السلام کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عسیٰ علیہ السلام کی طرح زندہ ہیں ۔

(تفسیر مظہری ج ۸ ص ۱۴۱)
علامہ سیوطی ؒ نے بھی ابن عساکر اور حاکم کے حوالہ سے کئی ایک روایات نقل کی ہیں جس سے معلو

م ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں ۔کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے کہ چار انبیاء کرام اب تک زندہ ہیں دو زمین میں حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام اور دو آسمان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام

(در منثور ج ۵ ص ۲۸۵)
اور بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام ہر سال رمضان المبارک میں بیت المقدس میں جمع ہوتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں

(تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۱۱۶)
لیکن مشہور ناقد حدیث حافظ ابن کثیرؒ نے ان روایت کو صحیح قرار نہیں دیا ۔ان جیسی روایت کے بارے میں ان کا اپنا یہ فیصلہ ہے " وھو من الاسراءیلیات التی لا تصدق ولا تکذب بل الظاہر ان صحتھا بعید"ۃ ( البدایہ والنھایۃ ج ۱ ص ۳۳۸)یہ ان اسرائلیا ت میں سے ہیں جنکی نہ تصدیق کی جائے اوت نہ تکذیب ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان روایات کی صحت بعید تر ہے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب بن احبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہرین میں سے تھے ،اس قسم کی روایات مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہونگیں جس سے حضرت الیاس علیہ السلام کی حیات کا نظریہ مسلمانوں میں پھیل گیا ورنہ قرآن وھدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس سے ان کی حیات کا عقیدہ قائم کیا جا سکے یا یہ کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے ہوں البتہ ایک روایت مستدرک حاکم میں ملتی ہے جس میں یہ بات مذکور ہے کہ تبوک کی راہ میں نبی کریم ﷺ کی ملاقات حضرت الیاس علیہ السلام سے ہوئی ۔
لیکن اس روایت کو محدثین نے موضوع ( گھڑی ہوئی ) قرار دیا ہے ۔ مشہور ناقد حدیث علامہ ذہبی ؒاس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں " یہ حدیث مو ضوع ہے اللہ اس کا برا کرے جس نے یہ حدیث گھڑی ہے اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم کی بیخبری اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں

( در منثور ج ۵ ص ۲۸۶)
الغرض کسی سند صحیح سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام بقید حیات ہیں ۔ لہذا اس معاملہ میں احتیاط کا تقا ضا یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ " نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب "

(ہدایت کے چراغ ۔مولانا عبدالرحمن مظاہری)

واقعہ

آپ کے بارے میں بہت سے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے۔مروجہ تفاسیر میں حضرت الیاس علیہ السلام کا سب سے مبسوط تذکرہ تفسیر مظہری میں علامہ بغوریؒ کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔ اس میں جوواقعات مذکور ہیں وہ تقریباً تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں، دوسری تفسیروں میں بھی ان واقعات کے بعض اجزاء حضرت وہب بن منبہؒ اور کعب الاحبارؒ وغیرہ کے حوالہ سے بیان ہوئے ہیں جو اکثر اسرائیلی روایات نقل کرتے ہیں۔

ان تمام روایات سے خلاصہ کے طور پر جو قدر مشترک نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی دعوت دی، مگر دو ایک حق پسند افراد کے سوا کسی نے آپ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزبل نے آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، اور عرصہ دراز تک وہیں مقیم رہے، اس کے بعد آپ نے دعاء فرمائی، کہ اسرائیل کے لوگ قحط سالی کا شکار ہوجائیں، تاکہ اس قحط سالی کو دور کرنے کے لیے آپ ان کو معجزات دکھائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں، چنانچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔

اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے اور اس سے کہا کہ یہ عذاب اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو یہ عذاب دور ہوسکتا ہے۔ میری سچائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمھارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن ان سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں، اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ آکر بھسم کردے گی، اس کا دین سچا ہوگا، سب نے اس تجویز کو خوشی سے مان لیا۔

چنانچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا، بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی، اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجائیں کرتے رہے، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السلام نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی، اور اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی کو بھسم کردیا، یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، اور ان پر حق واضح ہوگیا، لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے، اس لیے حضرت الیاس علیہ السلام نے ان کو وادی قیثون میں قتل کرادیا۔

اس واقعہ کے بعد موسلا دھار بارش بھی ہوئی اور پورا خطہ پانی سے نہال ہوگیا، لیکن اخی اب کی بیوی ایزبل کی اب بھی آنکھ نہ کھلی، وہ حضرت الیاس پر ایمان کے بجائے الٹی ان کی دشمن ہوگئی اور اس نے آپ کو قتل کرانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت الیاس علیہ السلام یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے، اور کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل کے دوسرے ملک یہودیہ میں تبلیغ شروع کردی، کیونکہ رفتہ رفتہ بعل پرستی کی وبا وہاں بھی پھیل چکی تھی۔ وہاں کے بادشاہ یہورام نے بھی آپ کی بات نہ سنی یہاں تک کہ وہ حضرت الیاس علیہ السلام کی پیشنگوئی کے متعلق تباہ وبرباد ہوا چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور یہاں پھر اخی اب اور اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنا دیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔
( معارف القرآن جلد۷ صفحہ۴۷۱، سورۂ صٰفّت: آیت۱۲۳۳)

قرآنی آیات میں ذکر

۔ قرآن مجید کی دو سورتوں میں آپ کا ذکر ہے۔ سورۃ انعام کی آیتہ 85 میں حضرت زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آپ کا نام آیا ہے۔ اور قرآن نے چاروں کو صالح کہا ہے۔ سورۂ صافات آیتہ 123 میں آپ کو رسولوں میں شمار کیا گیا ہے پھرآیتہ 124 سے 1299 تک  آپ کا مختصر قصہ ہے کہ آپ کی قوم بعل نامی بت کو پوجتی تھی۔بعل سونے کا بنا ہوا تھا اور بیس گز لمبا تھا اور اس کے چار چہرے بنے ہوئے تھے اور چار سو خدام اس بت کی خدمت کرتے تھے جن کو ساری قوم بیٹوں کی طرح مانتی تھی اور اس بت میں سے شیطان کی آواز آتی تھی جو لوگوں کو بت پرستی اور شرک کا حکم سنایا کرتا تھا آپ نے اُسے خدائے واحد کی پرستش کے لیے کہا۔ اسی سورۃ کی آیتہ 130 میں‌آپ کو ال یاسین بھی کہا گیا ہے۔ مگر مترجمین و مفسرین نے ال یاسین کو الیاس ہی لکھا ہے۔

آپ ہی کی صفات سے متصف ایک پیغمبر کا نام بائبل میں ایلیاہ ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ بائبل کے ایلیاہ دراصل قرآن کے الیاس ہی ہیں۔ ثعلبی اور طبری وغیرہ نے آپ کے تفصیلی حالات لکھے ہیں جو زیادہ تر اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک الیاس، ادریس اور خضر ایک ہی  شخصیت کے تین نام ہیں۔

عام روایات کے مطابق آپ اسرائیلی نبی تھے اور حضرت موسی علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے۔ مورخین نے آپ کا نسب نامہ الیاس بن یاسین بن فخاص بن یغرا بن ہارون لکھا ہے اور عام خیال یہی ہے کہ آپ ملک شام کے باشندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ یہودیوں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور خشکی پر لوگوں کی کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ تری پر رہنمائی کے لیے حضرت خضر کو مامور کیا گیا ہے۔