حضرت نوح علیہ السلام

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2017 | 18:19 شام

لاہور(مہرماہ رپورٹ):حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالٰی کے پیغمبر تھے۔ آپ نے تقریباً 900 سال تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا مگر آپ کی قوم کا جواب یہ تھا کہ آپ بھی ہماری طرح عام آدمی ہیں اگر اللہ کسی کوبطورِ رسول بھیجتا تو وہ فرشتہ ہوتااور اس میں سے صرف 800 لوگوں نے ان کا دین قبول کیا۔حضرت نوح علیہ اسلام نےان کے عذاب کی بد دعا فرمائی جس کے نتیجے میں ان پر سیلاب کا عذاب نازل ہوا۔ اللہ تعالٰی نے آپ کی قوم پر عذاب بھیجا اور آپ کو ایک کشتی بنانے اور اس میں اہل ایمان کو

اور ہر چرند پرند کے ایک جوڑے کو رکھنے کو کہا۔ تب طوفان کی شکل میں عذاب آیا اور سب لوگ سوائے ان کے جو حضرت نوح کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار تھے  باقہ سب ہلاک ہو گئے۔

حالات زندگی

حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد ان کی اولاد دنیا میں خوب پھلی پھولی، لیکن ایک مدت گزر جانے کے بعد وہ لوگ  خدا کو بھول چکے تھے اور ایک خدا کی بجائے انہوں نے مٹی اور پتھر کے کئی خدا بنالیے تھے، نہ صرف ان کی عبادت گاہیں بتوں سے اٹی پڑی تھیں بلکہ ہر گھر میں بت رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کیا کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے احسانات جتلا کر سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور اس بری راہ سے منع فرمایا، جس پر چل رہے تھے اور ان کو یہ بھی بتادیا کہ اگر تم بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف رجوع نہ ہوئے تو تم پر عذاب نازل ہونے کا خطرہ ہے اور کہا کہ مجھے اللہ نے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، اس پر ان لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کا تمسخر اڑایا اور کہا بھلا یہ بتاؤ کہ تم نبی کیسے بن گئے، تم تو ہمارے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے ہو اور ہم میں ہی پیدا ہوئے ہو، تم میں ایسی کون سی چیز ہے، جس سے ہم تمہیں نبی سمجھیں اور اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو وہ کسی فرشتے کو نبی  بنا کر بھیج دیتا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات جتلائے اور کہا تم کو چاہیے کہ ان بیکار بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرو اور میں اس کی تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، تمہاری ہی بھلائی کے لیے تم کو نصیحت کرتا ہوں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کوئی ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں وعظ و تبلیغ کی اور کوشش کی کہ وہ خدائے واحد کے سچے پرستار بن جائیں مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ حضرت نوح علیہ السلام وعظ فرماتے تو ان کو ٹھٹھوں میں اڑاتے، کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ ان کی آواز کانوں میں نہ پہنچ جائے، صرف چند لوگ تھے جو آپ پر ایمان لائے۔ قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اے اللہ، میں تو اس قوم سے تنگ آگیا ہوں، اب تو ہی ان سے بدلہ لے۔

کشتی نوح

خداوند تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک کشتی بناؤ اور یہ بھی حکم دے دیا کہ دیکھنا اب کسی کی سفارش نہ کرنا، اب ان پر ضرور عذاب نازل ہوکے رہے گا، حضرت نوح علیہ السلام خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں لگ گئے۔ جب کشتی بن کر تیار ہوگئی تو خدا نے حکم دیا کہ اپنے اہل اور ان لوگوں کو کشتی پر سوار کرلو جو مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں رکھ لو۔

قوم نوح پر عذاب

جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی، زمین پر پانی بڑھنے لگا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو، مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔ پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔ اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کرلیا۔ اب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم  دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہوگئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔

 امام احمد رضا خان کی تحقیق

یہاں یہ بتانا ضروری ہے ملفوظات مجدد مات حاضرہ میں جو تحقیق احمد رضا خان بریلوی کی درج ہے وہ بھی کافی عمدہ ہے. فرماتے ہیں:-

ان کی تعمیر حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (١٤٠٠٠) برس پہلے ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب  تھی، بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰا لمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو ١٠ رجب کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر ٨٠٠ آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے(حضرت  آدم وحضرت نوح علیہ السلام)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا ٣٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ دسویں محرم کو چھ (٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین حضرت علی کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔

”بنی الھرمان النسر فی سرطان”

یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ(نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ،بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (٦٤) چونسٹھ برس  قمری(٧٧) مہینے، (٢٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع)برج جدی کے سولہویں (١٦) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (٦٦) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (٥٧٥٠سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (٧٠٠٠) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠)ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔”

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا واقعہ

قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے جن قوموں کا تذکرہ کیا ہے ان کے آثار آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان قوموں کو اللہ تعالی نے ان کی نافرمانیوں‘ خدا سے انکار ‘رسولوں ‘نبیوں اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردینے پر سخت سزائیں (عذاب ) بھی دیں اور قرآن میں ہم مسلمانوں کی عبرت اور رہنمائی کیلئے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے گذشتہ شماروں میں حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود پر عذاب کے واقعہ اور اس قوم کے سعودی عرب میں مدائن صالح کے نام سے وادی الجر میں موجود آثار کے بارے میں پڑھا۔ مقدس ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے اس مرتبہ بھی ہم ایک ایسے ہی پیغمبر کی قوم کا تذکرہ کررہے ہیں جو عذاب الہی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔ حضرت نو ح علیہ لسلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کے افراد خاندان اور اللہ کے حکم سے تیار کی گئی کشتی میں سوار جانوروں کے علاوہ ہر شئے پانی میں غرق کردی گئی تھی۔ کشی پر جملہ 8 افراد سوار تھے حضرت نوح علیہ السلام آپ کی اہلیہ ‘تین بیٹے اور بہوئیں باقی تمام مختلف اقسام کے جانوروں کی جوڑیاں تھیں۔ نوح علیہ السلام کا واقعہ سابقہ آسمانی کتابوں توریت زبور اور انجیل میں بھی ملتا ہے۔
چین کے عیسائی مبلغین اور سائنس دانوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے کئی ماہ پر مشتمل اپنی تحقیق کے اختتام کا 2010 میں اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخی کشتی کو تلاش کرلیا ہے۔ یہ کشتی مشرقی ترکی میں واقع ’’کوہ رارات‘‘ پر ملی ہے جس کی چوٹی کی بلندی 12 ہزار فیٹ ہے۔ ماہرین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں۔ یہ کشتی کئی میٹر برف کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ مشورہ رسالہ کرسچن سائنس مانیٹر اور نیشنل جیوگرافک چیانل نے اس ٹیم کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 200 برسوں سے ایک درجن سے زیادہ ٹیمیں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو تلاش کررہی تھیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ وہ ایک جودی (چوٹی) سے ٹکرا کر رک گئی تھی۔ چین کے ماہرین کی اس رپورٹ کو امریکی سائنس دانوں نے ماننے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کشتی کی لکڑی کے نمونے جو فارنسک جانچ کیلئے بھیجے گئے تھے اتنے پرانے نہیں ہیں کہ اس کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور کی کشتی ہے جبکہ چینی ماہرین کی ٹیم کا دعوی ہے کہ وہ 99.9 فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہی کشتی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے 4800 سال قبل اللہ کے حکم سے بنائی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشتی کی 3 منزلیں ہیں اور اس میں کئی بڑے بڑے کمرے ہیں۔ان کمروں میں لکڑی کے ستون ہیں۔
عرب اخبارات نے بھی اس ضمن میں سوال اٹھائے تھے کہ کیا واقعی یہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔ عرب اخبارات نے لکھا کہ چینی اور ترک عیسائی ماہرین نے اپنی تحقیق کیلئے قرآن کریم کی ان آیات کا بھی مطالعہ کیا تھا جس میں کشتی کے سفر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشتی کے ٹہرنے کے جس مقام کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سائنس دانوں کو کوہ رارات کی طرف لے جاتی ہے۔ گذشتہ 20برسوں میں کئی سائنس دانوں نے کوہ ارات کادورہ کیا۔ ان میں سے کچھ ایک نے پہاڑی پر بنی کشتی کی شکل کی چٹان کو ہی حضرت نوح کی کشی قرار دے دیا، لیکن چینی اور ترک ماہرین نے پہاڑ کے اس برفیلے مقام پر تحقیقات کی جہاں درجہ حرارت منفی 60 ڈگری ہوتا ہے اور پہاڑ کے جس حصے میں کشتی کے باقیات دریافت ہوئے ہیں وہ انتہائی ڈھلوان اور خطرناک ہے رپورٹ کے مطابق اس ٹیم نے 60 مختلف مقامات سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا مشاہدہ کیا۔ یہ کشتی کئی جگہوں سے ٹوٹی ہوئی ہے تاہم مکمل تباہ اس لئے نہیں ہوئی کہ یہ برف کی دبیز تہہ میں دبی ہوئی ہے کشتی ٹوٹی ہوئی ہونے کی وجہ سے ماہرین اسکے اندر داخل ہوپائے۔

چینی ماہر وینگ چینگ نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے اپنی تحقیق سے آگاہ کیا تھا۔ کشی کا معائنہ کرنے والے ایک چینی ماہر کا کہنا ہے کہ کشتی کا ہر کمرہ 5 میٹر اونچا ہے اس میں کوئی بھی جانور آسانی سے سما سکتا تھا۔ چینی ماہرین نے ریڈیو کاربن ٹیکنالوجی سے کشتی کے ٹکڑوں کا مشاہدہ کیا اور دعوی کیا کہ یہ 4800 سال پرانی ہے۔ کشتی میں کئی صندوق بھی ملے ہیں لیکن چینی ماہرین ان کو کھول نہیں پائے۔ ماہرین ایک مرتبہ پھر جدید آلات ایکسرے مشینوں کے ذریعہ کوہ ارارت کا تفصیلی دورہ کرنے والے ہیں تا کہ تمام رازوں سے پردہ ہٹانے کے علاوہ امریکی سائنس دانوں کے سوالات کا جواب دے سکیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی دریافت کا دعویٰ نیا نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لیونارڈ نامی برطانوی فوجی لڑائی میں حصہ لینے عراق گیا تھا۔ لیونارڈ کو تاریخ اور آثار قدیمہ میں کافی دلچسپی تھی اس لئے اس نے عراق کے بازاروں سے مختلف آثار قدیمہ کی اشیاء خریدنا اور جمع کرناشروع کیا۔ جب وہ چل بسا تو اس کے بیٹے سائمنس کے حصہ میں یہ اشیاء آئیں اس نے یہ اشیاء برطانیہ کے میوزیم کے حوالے کردیں۔ برٹش میوزیم سے وابستہ ماہر آثار قدیمہ ارونگ فنکل نے ان اشیاء کا معائنہ کیا۔ اس میں ایک تختی بھی جس پر قدیم اشوری زبان میں کچھ لکھا تھا۔ سخت مٹی سے بنی اس تختی پر لکھی عبارت کا جب انہوں نے ترجمہ کیا توہ وہ حیران رہ گئے۔ تختی پر درج تھا جب انسانوں کے گناہ بڑھ گئے تو خدا ان سے ناراض ہوگیا اور پھر اس نے گناہ گاروں کو پانی میں ڈبونے کافیصلہ کیا تب فرشتوں نے وادی دجلہ اور فرات میں آباد ایک نیک انسان (حضرت نوح علیہ السلام) تک خدا کا یہ پیام پہنچایا کہ وہ ایک کشتی تیار کریں اور اس میں نیک لوگوں کے علاوہ تمام جانداروں کا ایک ایک جوڑا بھی سوار کرلیں۔ اس تختی میں کشتی کو اتنا بڑا بتایاگیا ہے کہ وہ فٹ بال کے ایک اسٹیڈیم کے برابر تھی۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ تختی 4 ہزار برس پرانی ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے دو ہزار برس پہلے کی ہے اس طرح طوفان نوح کا ایک اور ٹھوس ثبوت دنیا کے ہاتھ بہت پہلے ہی لگ چکا ہے۔ عام طور پر مذہب خصوصاً اسلام کے منکرین ان واقعات کو افسانوی قصے قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام ثبوت ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے اس تختی پر یہ بھی لکھا ہے کہ نوح کی کشتی آج کل کی کشتیوں کی طرح لمبی نہیں تھی۔ بیضوی (انڈے نما) تھی اس زمانے میں دجلہ اور فرات میں اسی طرز کی کشتیاں چلتی تھیں۔ کشتی کے ٹہرنے کے مقام کے بارے میں قرآن مجید کے سورہ ہود آیت نمبر 44 میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بلند مقام (جودی) پر جاکر رکی تھی۔ عراق اور شام کے قدیم باشندے (بابل کے دور میں) یہ سمجھتے تھے کہ کشتی کوہ قردہ پر ٹہری تھی یہ مشہور پہاڑ جزیرہ ابن عمر کے قریب واقع ہے۔ یہ مقام بھی اب ترکی کے حصے میں ہے تاہم عراق کی سرحد اس سے متصل ہے۔ مسلم سائنس دانوں تاریخ دانوں نے کوہ قردہ کو ہی نوح کی کشتی کا ٹہراو کا مقام قرار دیا ہے اسی لئے یہ پہاڑ مسلمانوں میں کوہ جودی کے نام سے مشہور ہوگیا تاہم عیسائی مبلغین کاکہنا ہے کہ کشتی کوہ ارارت پر جاکر رکی تھی یہ پہاڑ آرمینیا اور ترکی کی سرحد پر ہے۔ آر مینیا میں 301 ء میں ہی عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیاگیاتھا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی اہمیت بڑھانے کیلئے کوہ ارارت کو نوح کی کشتی کا مقام قرار دیا گیااور اب سائنس دانوں اور ماہرین نے اس کشتی کو اسی مقام پر تلاش کرنے کا دعوی کیا ہے کوہ جودی (کوہ قردہ ) وادی دجلہ اور فرات کے قریب ہے جبکہ کوہ ارارت اس وادی سے کئی سو میل دور ہے اس لئے اس دعوی میں الجھن پائی جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کے علاوہ شیخ الانبیاء کا بھی خطاب عطا ہوا ہے، کیونکہ وہ پہلے پیغمبر ہیں جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے۔ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام 73 مرتبہ آیا ہے۔ ان کی عمر 900 برس تھی۔ نبیوں میں آپ سب سے طویل العمر ہوئے ہیں۔ حضرت نوح موجودہ عراق میں آباد ایک قوم کے پاس نبی بناکر بھیجے گئے تھے۔ جب بہت وعظ اور نصیحت کے باوجود بھی قوم نے سرکشی نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ سے آپ نے اپنی قوم کیلئے عذاب مانگا ‘ اللہ نے آپ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا۔ دو سال کی مدت میں کشتی تیار ہوئی جس کی لمبائی 3 سو گز اور چوڑائی 50 گز اونچائی 30 گز تھی۔ جب عذاب آیا تو آسمان سے مسلسل بارش ہونے لگی اور زمین سے چشمے ابلنے لگے ہر شئے غرق ہوگئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی 6 ماہ 8 دن پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم الحرام کو کوہ جودی پر جاکر ٹہر گئی۔ کئی دن تک پانی اتر تا رہا اس کے بعد جب خشکی پیدا ہوئی تو حضرت نوح علیہ اسلام نے خسران شہر بسایا اور ایک مسجد بنائی جس کا نام ثمانین تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد صرف 60 برس زندہ رہے ان کا مزار آج بھی لبنان میں موجود ہے۔