قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سال زندگی کا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 04, 2017 | 06:55 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): حضرت عزیر علیہ السلام سو سال کے بعد زندہ ہونے کے بعد شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ اس وقت نہ تو کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے ؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہو

چکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ! آپ کیسے عزیر ہو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے با کمال تھے کہ ان کی ہر دعاء مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر علیہ السلام ہیں تو میرے لئے دعا کیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آ جائے اور میرا فالج اچھا ہو جائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعاء کر دی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقیناً حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لیکر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلا شبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنائیے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کر دیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی یا نہیں ؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کر دی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کر دو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کر دوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقیناً یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذاللہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ ( معاذاللہ ) ( تفسیر جمل علی الجلالین، ج1، ص322، پ3، البقرۃ: 259 ) ٭

(البقرہ259:2) ترجمہ: کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا : ”اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا : ”بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟” وہ بولا کہ ”یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے،اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔” جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔