حـجــــاب

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 20, 2022 | 17:20 شام

سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی بیگم کی سگی بہن لارن بوتھ کی ویڈیوز قارئین نے دیکھی ہوں گی۔ ایک تقریب میں ان کی دونوں معصوم بیٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور وہ حاضرین کو بتارہی ہیں کہ "جب کافی مطالعے کے بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوئی تو میں نے اپنی بیٹیوں کو بتایا کہ اب میں مسلمان ہونے جارہی ہوں، اس پر انھوں نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے، ایک سوال تھا، "Mom! will you open your chest to the public ?" (ماما کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی سینہ نمایاں کرکے لوگوں میں پھریں گی؟) میں ن

ے کہا "Oh no I will cover my whole body" اس پر انھوں نے بڑے زور سے پُر مسرت نعرہ لگایا"۔ پھر وہ سامعین سے مخاطب ہوئیں "میرا حجاب میرے مسلمان ہونے کا سمبل ہے، یہ میرے لیے شرف اور افتخار کا باعث ہے۔ مجھے حجاب سے اس لیے محبت ہے کہ میرے اﷲ سبحانۂ تعالیٰ کی خوشی اور خوشنودی اِسمیں ہے"۔ دو سال پہلے وہ پاکستان تشریف لائیں تو ان سے ملاقات بھی ہوئی، ایک محفل میں وہ پاکستانی خواتین کو بار بار کہتی رہیں کہ " پاکستانی لڑکیوں کو بتائیں کہ عریاں اور ٹرانسپیرنٹ لباس پہننا یا ٹائٹس پہن کر خود کو نمایاں کرنا ماڈرن ازم نہیں، بے حیائی ہے۔ انھیں بتائیں کہ شیطان کا پہلا حملہ عورت کے لباس پر ہوتا ہے۔ مسلم خواتین کو اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر فخر کرنا چاہیئے، مغرب، اسلامی معاشروں سے حیاء کا سرمایہ چھین کر مسلمان لڑکیوں کو بے حیا بنانا چاہتا ہے، وہ مسلمانوں کی حمیت ختم کرنے کے لیے حیاء کے قلعے کو مسمار کردینا چاہتا ہے"۔ جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، " میرا حجاب میرے لیے اپنے آپ کو اﷲکے سپرد کرنے کی یاد دہانی ہے۔ حجاب پہن کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اﷲ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔ جس طرح پولیس اور فوج کا سپاہی وردی میں اپنے پیشے کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے اسی طرح حجاب بھی مجھ سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ نیم عریاں یا ہیجان انگیز لباس کا مطلب ہوتا ہے اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو میں تیار ہوں، جب کہ حجاب واضح طور پر بتاتا ہے "میں آپ کے لیے ممنوع ہوں۔" میرے لیے بڑی بہن کی طرح محترم لاہور کالج فارویمن کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین صاحبہ (اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں) سے اس موضوع پر بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ کہنے لگیں، "مجھ سے کچھ طالبات حیاء کے بارے میں جب کہتی ہیں، "میڈم! حیاء تو دل میں یا آنکھوں میں ہوتی ہے، اس کا لباس سے کیا تعلق ہے"تو میں انھیں بتاتی ہوں "بیٹا! کچھ لوگ بیہودہ لباس کے دفاع میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ * حیاء کا لباس سے گہرا تعلق ہے۔ جو لڑکی اپنے جسم کے فیچرز اور اُبھار ڈھانپتی ہے وہ باحیاء ہے اور اگر کوئی لڑکی اپنے فیچرز اور خدوخال سرِ عام دکھانے میں شرم محسوس نہیں کرتی تو وہ بے حیائی ہے"۔ انھوں نے بتایا کہ "میری ایک بیٹی ڈاکٹر ہے۔ ایک دن اس نے مجھے خود کہا کہ امّی میں پورے بازوؤں والی قمیض پہن کر اسپتال جایا کروں گی کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتی کہ وار ڈ میں مریض میرے ننگے بازو دیکھتے رہیں "۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید کہا، " نئی نسل کو بے حیائی سے بچانا ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے۔ دہشت گردی سے بھی بڑا! اس کے لیے *ماؤں اور ٹیچرز کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، انھیں چاہیئے کہ بے حیائی کے خلاف ڈٹ جائیں اور پوری جرأت سے اس کے خلاف نفرت کا اظہار کریں۔ انھوں نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی تو وہ مجرم ٹھہریں گی۔