وہ عورت جس نے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد ایسا کام کیا کہ دنیا میں نئی مثال قائم کردی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 07, 2017 | 18:58 شام

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) یہ 1986ءکی ایک سرد رات کا ذکر ہے کہ لندن کے علاقے ایلنگ میں 21 سالہ جل ساورڈ اپنے والد اور ایک دوست کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ دروازے پر دستک ہوئی تو جل کے والد کینن ساورڈ دروازہ کھولنے گئے لیکن جونہی انہوں نے دروازہ کھولا تو تین مسلح افراد اندر گھس آئے۔ انہوں نے دروازے کو اندر سے لاک کردیا اور گھر میں موجود تینوں افراد کو دبوچ لیا۔ وہ گھر میں موجود زیورات اور نقدی وغیرہ لوٹنے آئے تھے۔ کچھ دیر تک گھر کی تلاشی لینے کے بعد انہوں نے جل کے دوست اور والد کو پیٹنا شروع

کردیا۔ دونوںکو لاٹھیوں اور بلے سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکو جل کو گھسیٹتے ہوئے ایک بیڈروم میں لے گئے اور رات بھر اسے جنسی درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔ جب اس بھیانک جرم کی تفصیلات سامنے آئیں تو پورے ملک میں ہنگامہ برپاہوگیا۔ ڈاکوﺅں نے ناصرف جل کے دوست اور والد کو لرزہ خیز تشدد کا نشانہ بنایا تھا بلکہ ان کے زخموں پر نمک اور مرچیں بھی ڈالی تھیں۔

اسی طرح انہوں نے جل کو بھی رونگٹے کھڑے کردینے والے ظلم کا نشانہ بنایا تھا۔ عدالت میں مقدمہ چلا تو مزید دردناک تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ مقدمے کی کارروائی کچھ عرصے چلی جس کے بعد تینوں ڈاکوﺅں کو سزائیں سنادی گئیں۔ اگرچہ جل پر ہونے والا ظلم کسی بھی انسان کو پاش پاش کردینے کے لئے کافی تھا لیکن انہوں نے خود کو مایوسی اور غم کی دلدل میں غرق کرنے کی بجائے ایک ایسی مثال قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جب ان کا مقدمہ چل رہا تھا تو برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو اکہ ریپ سے متاثرہ کسی خاتون نے اپنا نام خفیہ رکھنے کا حق استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ جل نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی تفصیلات دنیا کے سامنے آ کر بیان کیں،جس کے نتیجے میں برطانوی معاشرے میںا یک ایسی تبدیلی آئی جس کے اثرات آج پورے مغربی معاشرے میں دیکھے جاتے ہیں۔ 

جل نے اپنی تمام زندگی جنسی جرائم سے متاثرہ خواتین کے لئے وقف کردی اور تین دہائیوں تک اس بات کا پرچار کرتی رہیں کہ جنسی ظلم کا نشانہ بننے والوں کو شرمندگی کا ظلم سہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ریپ کا نشانہ بننے پر وہ شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ شرمندہ تو انہیں ہونا چاہیے جو یہ جرم کرتے ہیں۔ جل نے جنسی جرائم سے متاثرہ افراد کی مدد کے لئے غیر معمولی کام کیا، جس کی بنیادپر برطانیہ میں قانون سازی بھی کی گئی اور معاشرے میں جنسی جرائم کے متاثرین کے بارے میں عوامی رویہ بھی بڑی حد تک بدل گیا۔جل کی عصمت دری کرنے والے دو مجرموں کے تیسرے ساتھی رابرٹ سے انہوں نے 1998ءمیں ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات میں رابرٹ نے بے حد پشیمانی کا اظہار کیا اور معافی کا طلبگار ہوا۔ اس موقع پر جل نے ناصرف اسے معاف کردیا بلکہ یہ بھی کہا ”تمہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، تم ان میں شامل نہیں

جنہوں نے میرے جسم کو پامال کیا۔“ احساس، انسانیت دوستی اور صلہ رحمی کی عظیم مثال قائم کرنے والی یہ خاتون گزشتہ روز 51 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ وہ اپنی موت سے قبل یہ وصیت بھی کرگئی تھیں کہ مرنے کے بعد ان کے اعضاءضرورت مندوں کو عطیہ کردئیے جائیں۔