ہنگری ريفرنڈم: اٹھانوے فيصد ووٹر يورپی اسکيم کے خلاف مگر قانونی حیثیت سے عاری
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 03, 2016 | 17:51 شام
مہاجرين کی کوٹے کے تحت يورپی يونين کے رکن ممالک ميں تقسيم کے معاملے پر ہنگری ميں ہونے والے ريفرنڈم ميں تقريباً تمام افراد نے منصوبے کی مخالفت کی تاہم ريفرنڈم کا ٹرن آؤٹ اس قدر کم رہا کہ اسے قانونی حيثيت حاصل نہيں ہو سکی۔
ہنگری کے نيشنل اليکشن آفس کی ويب سائٹ پر جاری کردہ غير حتمی اعداد و شمار کے مطابق ريفرنڈم ميں حق رائے دہی استعمال کرنے والے 98.3 فيصد افراد نے يورپی يونين کی اسکيم کو مسترد کر ديا ہے۔ يہ اعداد و شمار 99.3 فيصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد پير تين اکتوبر کی صبح جاری کيے گئے ہيں۔ ہنگری ميں ہونے والے اس ريفرنڈم ميں 8.26 ملين افراد کو حق رائے دہی حاصل تھا تاہم صرف چاليس فيصد کے قريب لوگوں نے يہ حق استعمال کيا۔ ريفرنڈم کے نتائج کو قانونی حيثيت حاصل ہونے کے ليے کم از کم پچاس فيصد افراد کی شراکت درکار ہوتی ہے اور اسی ليے ريفرنڈم کے نتائج کو قانونی حيثيت حاصل نہيں۔ حتمی نتائج کا اعلان آئندہ ہفتے تک متوقع ہے۔
مشرقی يورپ ميں ديگر سابقہ سويت رياستوں کے ہمراہ ہنگری بھی يورپی يونين کی اس پاليسی کے خلاف ہے جس کے تحت رکن رياستوں کو ايک باقاعدہ اسکيم کے تحت ايک مخصوص تعداد ميں مہاجرين کو پناہ دينی ہے۔ شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور چند شمالی افريقی ممالک سے گزشتہ برس ايک ملين سے زائد تارکين وطن نے سياسی پناہ کے ليے يورپ کا رخ کيا تھا اور ہجرت کا يہ سلسلہ رواں سال بھی جاری ہے۔ ہنگری کے وزير اعظم وکٹور اوربان نے گزشتہ برس اپنے ملک کی سرحدوں پر باڑيں نصب کرتے ہوئے وہاں ہزاروں کی تعداد ميں پوليس اہلکار تعينات کر ديے تھے تاکہ مہاجرين ہنگری ميں داخل نہ ہو سکيں۔ ان کا موقف ہے کہ ہنگری ايک مسيحی ملک ہے اور وہ اس ليے مسلمان ممالک سے آنے والے ہزارہا مہاجرين کو پناہ فراہم نہيں کی جا سکتی کيونکہ يہ لوگ ان کے ملک کی سلامتی کے ليے ’خطرہ‘ ہيں۔
قبل ازيں اتوار کے روز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اوربان نے ريفرنڈم ميں لوگوں کی کم تعداد ميں شرکت کے معاملے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اہم بات يہ ہے کہ يورپی اسکيم کی مخالفت کرنے والے ووٹ، اس کے حق ميں ڈالے جانے والے ووٹوں سے زيادہ ہوں۔ بعد ازاں انہوں نے بيان ديا کہ وہ ان نتائج کو قانونی حيثيت دلانے کے ليے ملکی آئين ميں ترميم کی کوشش کريں گے۔