میاں بیوی میں ناچاقی کی وجہ سے زیادہ برے اثرات کس پر پڑتے ہیں؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 27, 2017 | 17:59 شام

لاہور(مانیٹرنگ یسک):تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کے زیادہ برے اثرات عورت کی صحت پر پڑتے ہیں۔امریکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں تعلقات ٹھیک نہ رہیں تو بیویوں میں دل کے امراض، فالج اور ذیابیطس کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔مرد اس صورتحال کا اثر مقابلتاً کم لیتے ہی۔یہ تحقیق دو سو چھہتر ایسے جوڑوں پر کی گئی تھی جو اوسطاً بیس برس سے شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ہر جوڑے کو ایک فارم پُر کرنے کے لیے کہا گیا جس میں شادی کے اچھے اور برے پہلوؤں سے متعلق سوال

ات درج تھے۔ان افراد کی بلحاظ افسردگی بھی درجہ بندی کی گئی۔اس کے بعد ڈاکٹروں نے ان افراد کے طبی ٹیسٹ کیے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ ان میں سے کتنے افراد میں کسی خطرناک بیماری کے اثرات ہیں۔جن شادی شدہ جوڑوں کے تعلقات کشیدہ تھے ان میں خواتین کے اندر افسردگی یا ایسی بیماریوں کے اثرات پائے گئے جوآگے چل کر خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔اگرچہ ان جوڑوں کے مردوں میں بھی افسردگی پائی گئی تاہم ان میں اس کے جسمانی اثرات ظاہر نہیں پائے گئے۔جنس کا یہ فرق اس لیے اہم ہے کہ دل کے امراض مردوں اور عورتوں دونوں ہی میں سب سے زیادہ ہلاکت کاسبب ہیں۔ایک محققیونیورسٹی آف اوٹا کی محقق نینس ہنری کا کہنا ہے کہ ٹیم کو توقع تھی شادی میں تناؤ، مثلاً غصہ، ناراضی اور نوک جھونک کے جو برے اثرات مطالعے کے دوران سامنے آئیں گے وہ میاں بیوی دونوں کے ذہن اور جسم پر مرتب ہوں گے۔انہوں نے کہا: ’مگر یہ بات عورتوں کے بارے میں تو ٹھیک ثابت ہوئی مگر مردوں میں ایسا نہیں تھا۔‘’جنس کا یہ فرق اس لیے اہم ہے کہ دل کے امراض مردوں اور عورتوں دونوں ہی میں سب سے زیادہ ہلاکت کاسبب ہیں۔‘پروفیسر ٹِم سمِتھ جو اس تحقیقی ٹیم کے شریک سربراہ تھے کہتے ہیں کہ اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ اچھی خوراک اور ورزش سے جسمانی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔تاہم ان کے بقول یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس سے دل کے امراض کے خطرات کم ہوں گے۔ایک فلاحی ادارے ریلیٹ سے وابستہ کرِسٹِن نارتھم کا کہنا ہے کہ اس بات کے قوی شواہد ہیں کہ جن شادی شدہ افراد کے باہمی تعلقات اچھے ہوں وہ لمبی اور خوش و خرم زندگی پاتے ہیں۔ ان کے بقول جنسی فرق کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ مرد اور عورت میں ہارمونز کا دور مختلف ہوتا ہے۔ اور پھر مردوں کے مقابلے میں خواتین اپنی صحت کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتی ہیں۔