سانحہ کوئٹہ کمشن میں جج نے کہا تم پر خدا کی لعنت ہوشرم سے ڈوب مرو:آئی جی بلوچستان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 20, 2017 | 04:49 صبح

اسلام آباد (مانیٹرنگ) سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ہسپتال ازخود نوٹس کیس میں قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے بلوچستان حکومت اور وزارت داخلہ سے تجاویز اور اعتراضات سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ فیڈرل گورنمنٹ سے کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد کرنے نہ کرنے کے حوالے سے جواب طلب کرلیا گیا ہے، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، کیس کی مزیدسماعت 6فروری تک ملتوی کر دی گئی۔ کیس کی سماعت جسٹس امیرہانی مسلم
کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں مندو خیل نے کی تو کوئٹہ بار کے وکیل حامد خان نے عدالتی استفسار پر عدالت کوآگاہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن اور کمیشن کی رپورٹ پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ وہ کمیشن کی رپورٹ سے مطمئن ہیں، یہ کوئی خفیہ رپورٹ نہیں یہ فیڈرل گورنمنٹ اور بلوچستان حکومت کی ناکامی کی داستان ہے اسے ایبٹ آباد اور ماڈل ٹاون کمشن کی رپورٹس کی طرح خفیہ نہیں رکھا گیا۔ کچھ چیزیں خفیہ نہیں ہونا چاہئیں، بتایا جائے ہسپتال کی سکیورٹی کیا تھی اور ہے، لوگ محفوظ نہیں تھے، واقعہ کے روز 81ڈاکٹرز ہسپتال سے غیر حاضر تھے، ان میں سے 52 عموماًغیر حاضر رہتے تھے جبکہ واقعہ میں ڈیڑھ سو سے زائدافراد زخمی ہوئے، اس حوالے سے انکوائری کی ضرورت ہے کمیشن نے لوگوں کے بیانات قلمبند کئے، تصاویر لیں جن کی مدد سے افراد کی شناخت کی گئی نادرا اور پنجاب فرانزک لیباٹری سے بھی مدد لی گئی۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا حکومت نے اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے؟ بلوچستان حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے کہا رپورٹ پبلک ہوگئی کچھ سکیورٹی ایشوز ہیں، بعض لوگوں کی شناخت ظاہر کرنا مناست نہیں ہوتا کچھ تحفظات ہیں مگر کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد ہونا چاہئے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہمارا مقصد ہے بہتری لائی جائے، واقعہ کیوں ہوا؟ کیا ہسپتال محفوظ نہیں؟ سکیورٹی معاملات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا لیگل ایشو کو پولیٹیکل ایشو بنانے کی کوشش کی گئی ۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا سکیورٹی کے بعض ایشو ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں ایف سی اور رینجرز کی ضرورت پڑتی ہے بلالیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں دیکھا پولیس ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی سکیورٹی صورتحال کیا تھی، چھوٹی دیوار یں، اہلکاروں کی کمی تھی، یہ محکمانہ کوتاہی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہے ، معطلی کوئی سزا نہیں۔ آئی جی بلوچستان احسن محبوب نے عدالت کو مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا سو فیصد سکیورٹی بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے 11واچ ٹاور ،2 پلرز ٹاپرزوار بنائے گئے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ نے باونڈری وال تعمیر کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی، 2005ء سے سیکیورٹی مسائل ہیں علاقہ بھی بہت وسیع ہے، دونوں ٹاورز کے درمیان چار سو میٹر کا فاصلہ ہے یہاں درمیان سے دیوار ٹوٹی تھی اندھیرا تھا جس کی وجہ سے دہشت گرد اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے، ایس پی، ڈی ایس پی کو معطل کیا گیا ہے فیڈرل گورنمنٹ نے انہیں چارج شیٹ جاری کی ہے، جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ دس دس اینٹیں بھی لگائی جاتیں تو تین سال میں دیوار تعمیر ہوسکتی تھی، سریاب روڈ دس سے پندرہ کلومیٹر کا ہے مگر روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے ، واقعہ کے بعد آئی جی کو یونیفارم اتار دینی چاہئے تھی، آئی جی نے کہا ان معاملات میں سیاسی رہنمائوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، کیا سریاب روڈ پر کرفیو لگا کر بند کردیں؟ جسٹس ہانی نے کہا یہ معاملے کا حل نہیں، آئی جی بلوچستان نے کہا ہم نے بلوچستان میں امن کے قیام کے لیئے بہت سے اقدامات کیئے ہیں، بلوچستان کے ایشوز سیاسی اور قومی ہیں اور اسی سطح پر حل ہوسکتے ہیں کیمرے لگائے ہیں ساری سڑکیں چلا رہے ہیں، سی پیک روڈ چل رہا کوئی بھی بم لیکر چلتا ہے کوئٹہ میں آکر چلاتا ہے کوئی روک ٹوک نہیں، اسے پیسے ملتے ہیں، جوڈیشنل انکوائری کمیشن میں ان کا موقف نہیں سنا گیا، بے عزتی کی گئی، آٹھ گھنٹے تک کھڑے رکھا حلف لیا گیا جو کہوں گا سچ کھوں گا، دوسرے اہلکاروں کی کارکردگی رپورٹ پر حلف اٹھانے کا کہا گیامیں کسی کے حوالے سے حلف کیسے اٹھائوں؟ کمیشن میں کہا گیا جائو ڈوب مرو، ہماری بھی کوئی عزت ہے، ہم بھی عوام کے لیئے اپنی جان دیتے ہیں، ہمیں عدالت سے انصاف نہیں ملے گا تو ہم کہاں جائیں؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کا کسی کو حق نہیں آپ جذباتی نہ ہوں، واقعہ ہوگیا مگر مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اس کے لیئے پیش بندی ضروری ہے یہ کسی فرد واحد کا معاملہ نہیں اسے وسیع تناظر میں دیکھنا ہوگا آپ پولیس کے افسر ہیں قانون لاگو کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے، کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرانا عدالت کا کام ہے۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے انہوں نے عدالت سے جواب کے لئے تین دن کی مہلت کی استدعا کی۔عدالت نے اٹارنی جنرل کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا وہ پانامہ کیس میں گئے ہیں۔ جسٹس ہانی نے کہا جب وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل ہیں تو پھر مخدوم علی خان کو وکیل مقرر کرنے کی سمجھ نہیں آئی، وزارت داخلہ اور فیڈرل گورنمنٹ میں فرق ہے وزارت داخلہ فیڈریشن کا ایک ادارہ ہے۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ عدالت کے کراچی اور کوہستان کے حوالے سے بھی فیصلے موجود ہیں، جسٹس ہانی نے کہا کہ کراچی کے حوالے سے متفرق درخواستیں تھیں مگر کوئٹہ سانحہ پر فاضل عدالت نے سوموٹو لیا اور کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی ہے جس میں بلوچستان حکومت اور وفاق کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا آئندہ کوئی التواء قبول نہیں کیا جائے گا۔ نوائے وقت رپورٹ/ آئی این پی/ صباح نیوز کے مطابق آئی جی بلوچستان کمرہ عدالت میں جذباتی ہوگئے،آئی جی بلوچستان نے کہا کہ ہمیں کمشن میں سنا نہیں گیا،آٹھ گھنٹے تک کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،ہمیں کہا گیا تم پر خداکی لعنت ہو۔ جج نے مجھے کہا شرم سے ڈوب مرو،کیا یہ ٹھیک ہے؟ آئی جی بلوچستان نے کہا کیا صرف ججز کی عزت ہے؟ ہم ذلیل ہونے کیلئے رہ گئے ہیں،خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کمشن میں مجھے گالیاں دی گئیں، کیا انصاف اداروں کیلئے اور پولیس والے صرف ذلیل ہونے کیلئے ہیں۔انہوں نے کہا مجھ سے غیر متعلقہ سوالات پوچھے گئے۔ عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا وزارت داخلہ حکومت کا حصہ ہے یا الگ سے کوئی ادارہ ہے اگر وزارت داخلہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے تو وزارت داخلہ کی طرف سے کمشن کی رپورٹ پر کیوں اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔بلوچستا ن بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کوئٹہ سانحہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمشن کی رپورٹ جامع ہے جو انتہائی محنت سے بنائی گئی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا وزیر داخلہ نے وکیل مخدوم علی خان کی خدمات حاصل کی ہیں جو پانامہ لیکس کیس میں مصروف ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکیاوزارت داخلہ آزاد ہے کہ اس نے الگ سے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں۔ رانا وقار نے کہا چوہدری نثار حکومت کا حصہ ہیں ان کے بارے میں آبزرویشن کی وجہ سے انہوں نے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ کیاچوہدری نثار کو اٹارنی جنرل آفس پر بھروسہ نہیں ہے۔ حامد خان نے کہا وزیر داخلہ نے اس رپورٹ کے بارے میں میڈیا پر بھی بات کی ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کی بات نہ کریں اس معاملہ بارے ہم وزیر داخلہ کے وکیل سے پوچھیں گے۔ انہوں نے کہا کوئٹہ کمشن کی رپورٹ کی نقول تمام صوبائی محکموں کو بھجوائی جائیںتاکہ وہ بھی اس پر اپنے اعتراضات دائر کرسکیں۔اس موقع پر حکومت بلوچستان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا یہ رپورٹ عدالت کی ویب سائیٹ اور نیٹ پرموجود ہے ، بلوچستان حکومت انتظار کررہی ہے سپریم کورٹ کوئی حکم جاری کرے تو حکام اس کی روشنی میں اقدامات اٹھائیں۔ ہم نے یہ رپورٹ عام نہ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن رپورٹ پہلے ہی دن عام کردی گئی کچھ حقائق ایسے تھے جن کو نشر نہیںہونا چاہیے تھا۔