عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 29, 2016 | 07:32 صبح



ابھی زخم بھرے توکیا خون بھی کفن سی نچڑا نہ تھا کہ ایک خبر نے دل دہلا کے رکھ دیا۔ شہید بچوں جسدِ خاکی جن کو پھولوں کی مانند لے کے جانا چاہے تھا انکو ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر اس طرح رسوا کیا جا رہا تھا جیسے کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہوں۔ اس منظر کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو دکھایا گیا۔ یہاں ایک واقع یاد آتا ہے: ایک ننھے شامی کی لاش کو ساحل پہ دیکھ کر پورا یورپ بھی چیخ اٹھتا ہے اور اپنی سرحدیں شامیوں کے لئے کھول دیتا ہے مگر ادھر ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں تک نہ کھل سکیں ۔ آخر ایسا کیوں ہوا! ۔۔۔ کیا آئندہ کوئی اقدام ہونگے ؟؟ مجھے نہیں لگتا۔ہاں جو ہو گا وہ بتا دیتا ہوں: ایک کمیشن بنے گا ور پھر کبھی اس کی رپورٹ نہیںآئے گی جیسا کہ لیاقت علی خان کے قتل کاکیا بنا؟ آج تک نہیں پتا چلا کہاں گیا وہ کیس؟
 خیر یہ تو تھی ان جوانون کی بات جنہیں یہ تک نہیں پتا تھا کہ انھیں کیوں بلایا گیا۔ کیا وجہ تھی بلانے کی؟اب شاید تا قیامت پتا نہیں چلےگا۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوا کیوں ؟
جناب! جواب آسان اور سیدھا سادہ ہے۔ وہ یہ کہ ان سب شہیدوں میں نہ تو کوئی بھٹو تھا نہ ہی کوئی گیلانی یا تاثیر تھا۔ ایسا میںنے کیوں کہا ؟ بتا دیتا ہوں۔شروعات تاثیر صاحب سے کرتے ہیں۔شہباز تاثیر کچھ عرصہ قبل اغوا ہو گئے تھے جو کے ایک بہت دردناک عذاب تھا۔ پوری قوم اور خاص طور پر تاثیر فیملی کیلئے تاہم جب شہباز تاثیر بخیر و خیریت ایک اپریشن میں واپس ملے تو انھیں اسپیشل ایک فلائٹ کے ذریعے لاہور پہنچایا گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ گیلانی فیملی ساتھ بھی پیش آیا اور جب علی حیدر گیلانی واپس ملے تو سپیشل PM صاحب کا جہاز افغانستان بھیجا گیا۔
کچھ دن پہلے بلاول بھٹو نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ مجھے مزید سیکورٹی دی جائے۔۔۔ ویسے پہلے بھی تیس کے قریب گاڑیاں ہوتی ہیں۔یہ بھی کم ہیں؟یہ ہیں ہمارے حکمران جن کا یہ کہتے کہتے گلا خشک ہوجاتا ہے کہ ہم عوام کے خادم ہیں۔

کتنا تعجب خیز ہے وزیر اعظم کا کھانا اور ناشتہ جہاز میں جاتاہے۔
ہمیں کسی سی گلا نہیں کہ فلاں کا ناشتہ کیوں گیا جہاز پر اور فلاں خود کیوں آیا جہاز پر۔ ہمیں گلا ہے تو اس بات سے کہ ہمارے شہید وں کو ویگنوں کی چھتوں پر کیوں انکے گھروں کو بھیجا گیا۔ آخر کیوں ان کیلئے ایمبولینسیں دستیاب نہ ہو سکیں؟ کیا ہم کبھی اس سوال کا جواب لے پائیں گے ظالموں سے؟؟؟؟ کیا کوئی اس کا جواب دے گا؟؟؟؟
حضرت علی رضی اللہ کا ارشاد ہے کفّر کا نظام چل سکتا ہے پر ظلم کا نہیں۔
ہم سب کا یہ حق ہے کہ ہم جواب طلب کریں اس بات کا کہ کیا اس ملک میں " شریف بھٹو یا گیلانی" ہونا ضروری ہے ؟
اگر نہیں تو پھر ہمارے جوانوں کے ساتھ ہمارے پرچم میں لپٹے جسم کیوں دربدر ہوئے اور کب تک ہوتے رہیں گے؟ اس بات پے ختم کرتا ہوں
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
اور امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں