عمران خان کا دورۂ روس

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 24, 2022 | 17:31 شام

وزیراعظم عمران خان کا دورۂ روس اگرچہ پہلے سے طے شدہ تھا مگر اِس شیڈول کے مطابق بدھ کی شام 6بجے ماسکو کی سردی اور برفباری میں پاکستان کے جس حکمران کو روسی سرزمین پر قدم رکھنا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت اِس سے اِس علاقائی و عالمی کیفیت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کردار ادا کروانا چاہتی ہے جو اِن دنوں روس اور یوکرین ہی نہیں دو بلاکوں میں کشیدگی کے نام پر نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصے سے تصادم کی طرف بڑھتی صورت حال کے تناظر میں فرانسیسی اور جرمن ہم منصب ماسکو کے دورے کر چکے ہیں جن کے نتیجے میں کشیدگی کم

ہوتی اور روسی و امریکی صدور کی ملاقات کے امکان پیدا ہوئے تھے مگر یوکرین کے مشرقی حصے میں ڈونٹسک اور لہنسنگ کے اعلانِ آزادی کے بعد معاملات گمبھیر محسوس ہورہے ہیں۔ یوکرین کے صدر سے تبادلہ خیال کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے فرانسیسی و جرمن ہم منصبوں سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ اس باب میں پولینڈ کے وزیراعظم، یورپی یونین کے سربراہ اور برطانوی وزیراعظم کے ردّعمل سامنے آچکے ہیں جبکہ فرانس کی کوششوں سے پیوٹن بائیڈن کانفرنس کے انعقاد کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے وہ تاحال خطرے میں ہیں۔ دوسری جانب ماسکو پر پابندیوں کے اعلان کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کے عالمی نرخ 100ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ عالمی بساط پر نظر آنے والی اس کیفیت اور خود وطن عزیز میں اپوزیشن کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد اور لانگ مارچوں جیسے اعلانات کے منظر نامے میں، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اپنا دورۂ روس موخر کر دینا چاہیے تھا جبکہ عمران خان کی چیلنجوں سے نبردآزما ہونے والی فطرت کے واقفین طے شدہ شیڈول پر ان کے دورۂ روس کو درست ہی نہیں، خطے اور عالمی امن کے مفاد میں قدرت کا عطا کردہ موقع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کا دورہ عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی خارجہ حکمت عملی کا عکاس ہے۔ وزیراعظم عمران خان عازم ماسکو ہونے والے دسویں پاکستانی حکمران ہیں جن کی درپیش حالات میں روسی صدر پیوٹن سے یقینی طور پر عالمی حالات پر گفتگو ہوگی۔ ان کے کسی بلاک یا نئی سرد جنگ کا حصہ بنے بغیر روس، چین اور امریکہ سمیت تمام ممالک سے باہمی مفاد و احترام پر مبنی تعلقات کے نظریات سے سب ہی واقف ہیں۔ روسی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو اور قبل ازیں دیے گئے بیانات میں وہ کشمیر اور یوکرین سمیت تمام تنازعات پُرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیتے رہے اور بھارتی وزیراعظم مودی کو مناظرہ کرنے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن سے ان کی ملاقات میں 3ارب ڈالرز کے مجوزہ پی ایس جی پی کے منصوبے کے طریق کار، دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کی تدابیر، اور سی پیک میں روس کی شمولیت کے ذریعے اس ٹرائیکا کے تمام امکانات میں گیم چینجر ہونے کے امکانات کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان اس بات پر سختی سے یقین رکھتے ہیں کہ تنازعات پُرامن بات چیت سے حل ہونے چاہئیں اور اس باب میں وہ روس یوکرین مسئلے کے حوالے سے بھی یقیناً کردار ادا کرنا چاہیں گے جبکہ اپنے اقتدار سنبھالنے کے پہلے روز سے بھارت کو مسئلہ کشمیر پُرامن طور پر حل کرنے کی بھی دعوت دیتے رہے ہیں۔ عالمی امن کا مفاد اسی میں مضمر ہے کہ عالمی برادری اس باب میں تندہی سے ان کا ساتھ دے۔ افغان مسئلے سے علاقائی امن کو لاحق خطرات کے سلسلے میں اسلام آباد، ماسکو، بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے۔ اس باب میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی المیوں کے رونما ہونے سے قبل احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو نقصانات سے بچنا یا ان کا حجم کم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔