خط کے پس پردہ انکشافات ‏اگر عدم اعتماد غیر ملکی سازش ہے اور خط 7 مارچ کو ملا تو 27 مارچ تک کیوں انتظار کیا گیا اور فوج کیوں چپ رہی؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 06, 2022 | 19:53 شام

اس کی دو وجوہات ہیں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس اور یوم پاکستان اور دوسری امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید کی باحفاظت منتقلی پاکستان میں 57 اسلامی ملکوں کے ‏وزرائے خارجہ کو اسلام آباد میں جمع کرنے کا فیصلہ دسمبر میں ہوچکا تھا اس موقعے پر کانفرنس کی ترتیب اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے خان اور عسکری قیادت نے امریکہ کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ ان کو اچھی طرح ادراک تھا کہ کئی اسلامی ممالک امریکہ سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ یہ معاملہ ‏کھلنے کی صورت میں انکے وفود کی شمولیت خطرے میں پڑ سکتی تھی ع
سکری قیادت کے طرز عمل سے امریکہ کو لگا کہ وہ لاتعلق ہیں اور تحریک عدم اعتماد بغیر کسی رکاوٹ کے کامیاب ہوجائیگی لہذا اس نے او ائی سی اجلاس کو نہیں چھیڑاحتیٰ کہ 21 مارچ 2022 کو او آئی سی کانفرنس میں امریکی انڈر سیکریٹری ‏سے وزیر خارجہ شاہ محمود نے ملاقات بھی کی اور اس ملاقات کو مفید بھی قرار دیا اس ساری سازش کے خلاف ریاست پاکستان کا مرکزی گواہ سفیر ڈاکٹر اسد مجید ہے۔ 7 مارچ کو مراسلہ موصول ہونے کے چار دن بعد ڈاکٹر اسد کو خان اور عسکری اداروں نے خاموشی سے حیران کن طور پر بریسلز (بیلجیم) میں سفیر ‏تعینات کر دیا۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسکے پاکستان میں موجود ایجنٹ پاکستان کے رد عمل بارے مخمسے میں رہیں اور دوسرا ڈاکٹر اسد کی حفاظت تھی۔ کیونکہ امریکہ سے کوئ بعید نہیں ہے کہ وہ اپنا پلان خراب ہوتے دیکھ کر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ دے خود پاکستان میں بیرونی ‏ایجنٹوں کی بھرمار ہے اور یہاں سفیر کیلئے ظاہری طور پر خاص حفاظتی اقدامات کیے بغیر اسکی حفاظت کو یقینی بنانا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ حفاظتی اقدامات کیے جاتے تو امریکہ کے کان کھڑے ہوجاتے لہذا پاکستان نے اسلامی وزراء خارجہ اور یوم پاکستان تک اس امر کو خفیہ رکھا جس کا پی ڈی ایم ‏نے فائدہ اٹھایا۔ خاص طور پہ عسکری اداروں کی خاموشی کو پی ڈی ایم نے اپنی تائید بنا کر پیش کیا۔ کانفرنس روکنے کی ایک کوشش کی لیکن کسی پراسرار دھمکی پہ بلاؤل چپ کر گیا۔ امریکہ کو لگا کہ سب ٹھیک جارہا ہے تو اس نے مزید پنگا نہیں کیا۔ یوں سمجھیں خان نے ریاست کی پالیسی کی خاطر اپنی ‏حکومت کو داؤ پہ لگایا پھر اچانک خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے میں خط لہرا دیا۔ ساتھ ہی عوام کے سامنے پیش کرنے کی دھمکی دی تو جن ججوں سے امریکیوں نے ملاقاتیں کی تھیں ان میں سے ایک نے اس کو پڑھے بغیر ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ قرار دے کر خان کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ یکدم ہی ‏عسکری قیادت متحریک ہوگئی اور نیشنل سیکیورٹی کاؤنسل میں خط رکھا گیا۔ آرمی چیف نے اپوزیشن راہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کر دیں اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے مضمرات سے اگاہ کرنے لگے اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ عوام کہہ رہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں امریکہ کے 172 ووٹ ہیں اور پاکستان کے 165 ‏ہیں۔ امریکہ نے گھبرا کر ایک بلنڈر کیا اور ان کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہہ دیا کہ ہم نے تو کوئی دھمکی نہیں دی۔ حالانکہ پاکستان نے آفیشلی اس وقت تک امریکہ کا نام نہیں لیا تھا۔ جس کے بعد خان نے تقریر کی جس میں 'غلطی' سے امریکہ کا نام لیا اور اس کے ایک دو گھنٹے بعد عسکری قیادت نے خان ‏سے ایک اور ملاقات کر کے امریکہ کو اسکا سخت جواب دینے کا فیصلہ کیا اب پاکستان کی عسکری قیادت، پاکستان کی ھائی کورٹ، پاکستانی سفیر اور حکومت کہہ رہی ہے کہ خط سچ ہے، امریکہ نے دھمکی دی ہے اور تحریک عدم اعتماد کو امریکہ سپورٹ کر رہا ہے۔ لیکن فضل الرحمان فرما رہا ہے کہ یہ سارے جھوٹ ‏بول رہے ہیں صرف امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ سچا ہے۔ امریکہ پاکستان کو دھمکی دے ہی نہیں سکتا۔ امریکہ کا وکیل یہ وہی فضل الرحمان ہے جو تیس سال سے لوگوں کو امریکہ کے نام پہ بےوقوف بناتا رہا پی ڈی ایم بار بار اقرار کر چکی ہے کہ پاک فوج غیرجانبدار ہے۔ اب جب فوج کہہ رہی ہے کہ امریکی سازش ‏ہے تو یا فوج کی مان لیں یا پھر اعلانیہ اعتراف کر لیں کہ ہم امریکہ کے لیے ہی کام کر رہے ہیں اب دیکھتے ہیں امریکی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا پاکستان کامیاب ہوتا ہے