خان صاحب اگر 2018 میں اقتدار میں آنا چاہتے ہو تو یہ کام ہر صورت میں کر لو ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کے دیرینہ اور باشعور کارکن نے عمران خان کو شاندار مشورہ دے ڈالا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع فروری 13, 2017 | 08:55 صبح
لاہور (شیر سلطان ملک ) بہت سے پاکستانیوں کی طرح میں بھی عمران خان کی کامیابی کا متمنی ہوں ۔ دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے برعکس عمران خان کو اضافی نمبر دیتا ہوں۔مگر عمران خان کی کامیابی کا انحصار میری خواہش پر نہیں بلکہ اللہ تعالی کی عطا پر ہے اور اللہ تعالی نے کامیابی عطا کرنے کا ایک پیمانہ دے رکھا ہے یعنی درست سمت میں مکمل خلوص کے ساتھ محنت۔لہذا عمران خان کی کامیابی کے لیے بھی یہی اصول ہے ۔
2018 کے انتخابات قریب آ رہے ہیں عمران خان کو ان انتخابات میں کامیابی کے لیے کچھ ضروری کام کرنے ہوں گے۔سب سے پہلے پانامہ کا کیس ہے جو کہ تحریک انصاف بھرپور طریقے سے لڑ رہی ہے .اس کے لیے تحریک انصاف نے ثبوت تو کافی جمع کرائے لیکن اگر پی ٹی آئی اس کیس میں کچھ صحافی جو کہ سکینڈل فائل کرتے رہتے ہیں ان کو بھی اس کا حصہ بنائے مثلاً اسد کھرل,رؤف کلاسرہ,ارشد شریف اور عمر چیمہ وغیرہ .اور پھراگر پی ٹی آئی اس مقدمے میں امریکی مصنف ریمنڈ بیکر جنہوں نے میاں صاحب کی کرپشن کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے سے بھی مددلے لیں تو وہ میاں نواز شریف صاحب کو مزید پریشان کر سکتے. ہیں ۔پانامہ کیس کا فیصلہ اگر میاں صاحب کے خلاف آتا ہے تو یہ نواز لیگ کے لیے سانحے سے کم نہیں ہوگا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان اٹھا سکتے ہیں۔
دوسرا میدان اسمبلی ہے پی ٹی آئی نے اسمبلی کی سطح پر قوم کو شدید مایوس کیا ہے .قومی اسمبلی میں مسلسل بائیکاٹ پی ٹی آئی کے لیے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں.تحریک انصاف قومی اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی اور عمران خان کا اسمبلی کی بابت رویہ انتہائی بچگانہ ہے حیرت ہوتی ہے کہ کپتان اسمبلی کی افادیت سے واقف ہی نہیں جبکہ کپتان کی ٹیم کے وہ ارکان جو پہلی دفعہ اسمبلی آئے ہیں ان کی سیاسی تربیت کا سب سے بہترین فورم بھی اسمبلی ہے .اور پھر پنجاب اسمبلی جہاں تحریک انصاف کے پاس قائد حزب اختلاف کا منصب بھی ہے وہاں پر میاں محمودالرشید بری طرح سے ناکام نظر آتے ہیں۔وہاں بھی تحریک انصاف کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرکے بھرپور اپوزیشن سے اپنا وجود ثابت کرنا ہوگا. اور میرے خیال سے سڑکوں پر حکومت پر سیاسی حملوں سے زیادہ کارگر اسمبلی کا میدان ہے جہاں کے سیاسی حملے حکومت کو زیادہ پریشان کر سکتے ہیں ۔تیسرا اہم میدان کے پی کے ہے جہاں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے یہاں پر تحریک انصاف کو پرفارم کرنا پڑے گا.گوکہ پی ٹی آئی نے وہاں پر بلدیاتی نظام,پولیس,پٹوار خانہ اور کسی حد تک تعلیم اور صحت کےسیکٹر میں کچھ اصلاحاتکی ہیں مگر وہاں پر پی ٹی آئی کو کوئی انقلابی تبدیلی لانی پڑے گی,عمران خان نے کے پی کے پر توجہ نہیں دی جس کا وہ حقدار تھا اور پھر شیرپاؤ کی پارٹی کو جس طرح سے دوبارہ حکومت میں شامل کیا گیا ھے اس شرمناک قدم کی حمایت نہیں کی جا سکتی.پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت کو ثابت کرنا ہو گا کہ ان کی حکومت ماضی کی صوبائی حکومتوں اور دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب کی صوبائی سے بہتر ہے .پہلے ہی تین سال سے زائد کا عرصہ ضائع کر دیا گیا ہے پی ٹی آئی اور عمران کو اپنی بھرپور توانائی اس صوبے پر خرچ کرنا ہو گی .کے پی کے پی ٹی آئی کے لیے اگلے انتخابات میں ٹیسٹ کیس ثابت ہو گا جس کا اسے خصوصی خیال رکھنا ہو گا۔
چوتھا اہم میدان پارٹی کی تنظیم سازی ہے .پی ٹی آئی کی کمزور تنظیم شاید اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی نشاندہی اکثر ہارون الرشید صاحب,اظہارالحق,رؤف کلاسرہ اور عامر خاکوانی صاحب جیسے تجزیہ نگار کرتے رہتے ہیں جو کہ تحریک انصاف کے بارئے میں کچھ نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں ,عمران خان کو پی ٹی آئی کو ایک مضبوط جمہوری جماعت بنانا ہو گا,دو دفعہ انٹر پارٹی انتخابات کا التواء پھر تسنیم نورانی اور سیمسن شریف جیسے اچھی شہرت کے لوگوں کا انتخابی عمل سے جدا کرنا کوئی اچھی خبر نہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی میں گروپ مضبوط اور تنظیم انتہائی کمزور ہے ,اب تک پی ٹی آئی کا تمام ووٹ عمران کی ذات کے اردگرد گھومتا ہے پی ٹی آئی کو لانگ ٹرم پلاننگ کرنا ہو گی کہ عمران کی غیر موجودگی میں ووٹر کو کیسے پارٹی کا حصہ بنایا جا سکے اور یہ تنظیم سازی کے بغیر ممکن نہیں ہے .عمران کو پی ٹی آئی کو ایک ادارہ بنانا ہو گا اور اس میں ہر مسلے پر کھل کر بحث و مباحثہ کی فضا پیدا کرنا ہو گی جہاں کوئی بھی اہم فیصلہ فرد واحد نہ کرے بلکہ اس کو مشاورت سے مشروط کیا جائے. کسی امیدوار کے لیے اہلیت کے کچھ معیار طے کرنے ہوں گے اور اس کا چناؤ مقامی تنظیم سے مشاورت سے عمل میں آنا چاہیے ہر حلقے کے مسائل علحیدہ ہیں اس کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا.اور پھر جنوبی پنجاب جہاں اس کی حریف نواز لیگ کمزور ہے ادھر خصوصی توجہ درکار ہے .اگر عمران جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا حل تجویز کرےتو وہاں سے ایک بڑے حصے کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے اور حیرت ہے کہ پارٹی صدر شاہ محمود قریشی اور سکریٹری جنرل جہانگیر ترین دونوں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ھیں مگر اس کے باوجود پارٹی وہاں مضبوط نہیں ہے حالانکہ ان دو اہم لیڈروں کو جنوبی پنجاب کو پارٹی کا مضبوط گڑھ بنانا چاہیے تھا.ایسے ہی سندھ اور بلوچستان میں بھی اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے بھرپور محنت اور تنظیم سازی کے عمل کو شروع کرنا ہو گا.ان دو صوبوں میں تحریک انصاف بہت کمزور ہے اور پارٹی قیادت کی طرف سے بھی مسلسل بے اعتنائی برتی گئی ہے جو کہ پارٹی کے وفاقی تشخص کو مشکوک بناتی ہے .ان تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر پی ٹی آئی کو ہنگامی بنیادوں پر اپنا کام کرناہو گا.ویسے مضبوط تنظیم سازی کے لیے پی ٹی آئی کو دوسری جماعتیں جو کہ مضبوط تنظیم کی حامل ہیں جیسے کہ جماعت اسلامی یا پھر امریکی اور برطانوی سیاسی جماعتیں ان کے ماڈل سے مدد لینے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
پانچواں میدان خارجہ امور کا ہے ,عمران خان کے پاس شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر شریں مزاری اور خورشید محمود قصوری کی شکل میں ایک اچھی ٹیم ہے جو کہ خارجہ امورپر مہارت رکھتے ہیں۔عمران کی ان لوگوں کے ذریعے سفارتی اہمیت کے حامل ممالک جن میں سعودی عرب،ترکی،چین،امریکہ برطانیہ اور روس سر فہرست ہیں میں پی ٹی آئی کو قابل قبول بناناہو گا۔چین،سعودی عرب اور ترکی میاں صاحب سے قریب ہیں جبکہ عمران کی غیر یقینی حکمت عملی کے باعث یہ ممالک عمران کے بارئے میں جائز تحفظات رکھتے ہیں۔عمران کو اپنی ٹیم کے ذریعے ان ممالک میں اپنی پالیسی واضح کرنا ہو گی اور بتانا ہو گا کہ ان کے جائز مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ان ممالک سے دوری پی ٹی آئی کو بہت مہنگی پڑ سکتی ھے۔(بشکریہ دنیا پاکستان)