آپ عمران خان کے حامی ہیں یا میاں نواز شریف کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدارا ایک بات کو ضرور ذہن میں رکھیے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 05, 2017 | 06:23 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک)  روزنامہ نوائے وقت کے سینئیر کالم نگار  نصرت جاوید اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں

عمران خان جب بھی پریس کانفرنس کرتے ہیں تو جواب آں غزل کے طور پر مسلم لیگ کی میڈیا ٹیم بھی ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہو جاتی ہے۔ دونوں اطراف سے پریس کانفرنسیں ختم ہو جائیں تو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک اینکر خواتین و حضرات اپنی عدالتیں لگا لیتے ہیں۔ ان پریس کانفرنسوں اور ٹی وی پر لگائی عدالتوں

کی جہ سے ”فیصلہ“ ہو چکا ہے۔

اگر آپ عمران خان اور تحریک انصا ف کے حامی ہیں تو یہ بات طے کرچکے ہیں کہ شریف خاندان نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی، اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کیا، ان رقوم کو آف شور کمپنیاں بنا کر جائیدادیں خریدنے کےلئے استعمال کیا اور پاکستان کے لوگوں کو خبر تک نہ ہونے دی۔

نواز شریف کے چاہنے والے اس سوچ سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ان دوفریقین کی Either/Or سوچ کے ہوتے ہوئے کسی منصف کےلئے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ سنانے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ پانامہ والے قصے پر فریقین نے چونکہ اپنے ذہن بنا لئے ہیں، اس لئے جس فریق کی پسند کا فیصلہ نہ آیا وہ اپنا غصہ کسی نہ کسی صورت منصفوں پر ہی نکالے گا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی ساکھ اوروقار پر سوال اٹھیں گے تو معاشرے میں ابتری اور بے چینی مزید بڑھے گی۔ اس ابتری کا مگر ہم ادراک نہیں کر پا رہے ہیں۔

سیاسی حوالوں سے ہوئی اس خوفناک تقسیم کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی انتہا پسندوں نے بھی اپنی قوت کا بھرپور اظہار عید میلاد النبی کے روز چکوال کے ایک نواحی گاﺅں میں کیا۔ کفر کے فتوے اب سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر کےلئے بھی جاری ہو رہے ہیں۔

مذہبی انتہاءپسندوں کی طاقت کا ادراک کرنا ہو تو ذرا یہ بھی جان لینے کی کوشش کر لیجئے کہ 3 جنوری کی سہ پہر اپنی پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل عمران خان جیسے عوامی مقبولیت کی انتہاﺅں پر پہنچے اور ضدی واکھڑ مزاج مانے رہ نما کو انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی کن حضرات سے اور کیوں مانگنا پڑی۔ عمران خان کی غیر مشروط معذرت و معافی سے چند ہفتے قبل موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے عقیدے پر بھی خوفناک سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ہمارے ایمان اور عقیدے کی ”تصدیق“ کا حق و اختیار لہذا مذہبی انتہاءپسند گروہوں نے قطعی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ہم بے بس ہوئے اس پر احتجاج کرنے کی ہمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں اور ہمیں یہ ہمت لوٹانے کو ہماری ریاست تیار ہوکر ہی نہیں دے رہی۔