سید امتیاز علی تاج کی برسی کل عقیدت و احترام سے منائی گئی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اپریل 20, 2017 | 07:42 صبح
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): معروف ڈراما نگار امتیاز علی تاج کو 19 اپریل 1970ء کی رات دو سنگدل نقاب پوشوں نے قتل کر دیا۔ تاج 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سید ممتاز علی، دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے ،جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ اُن کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔ امتیاز علی تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل سکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اُنھیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی ،دراصل یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔تاج ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ’’کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ اُن کوڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔وہ گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔انھوں نے اُردو ڈراما نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔اُن کا تحریر کردہ ڈراما ’’انارکلی‘‘ جدید اُردو ڈراما نگاری کی تاریخ میں نقش ِاوّل اور سنگ ِمیل تصور کیا جاتا ہے۔ امتیاز علی تاج کے لکھے ہوئے مشہور ڈراموں میں؛ ستارہ، ورجینیا، دلھن، قسمت، روشن آرا،شاہ جہاں، چچا چھکن اور قرطبہ کا قاضی کے نام سرفہرست ہیں۔کہا جاتا ہے کہ امتیاز علی تاج نے اپنا پہلاڈراما’’ انار کلی‘‘ صرف بائیس برس کی عمر میں لکھا،جو اُردو ڈراموں میں اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ تاج نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا ’’قرطبہ کا قاضی‘‘ انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور ’’خوشی‘‘ پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔ ’’چچا چھکن‘‘امتیاز علی تاج کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا ناول’’محاصرہ غرناطہ‘‘ اور’’ ہیبت ناک افسانے ‘‘بھی مشہور ہیں۔ تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب، لاہور سے وابستہ رہے۔ اُن کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ِپاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ ٔبرائے حسن ِکارکردگی سے نوازا۔