سیاست میں مذہب کا غلط استعمال

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 13, 2017 | 17:33 شام

دہلی (شفق ڈیسک) موجودہ مودی حکومت میں شامل لوگوں کے اکسانے والے اشتعال انگیز تقاریر کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ حکومت میں شامل وزیر اور ممبر پارلیمنٹ جس طرح بھڑکانے والے بیان اور تقریر دے رہے ہیں، وہ حیران کرنے والا معاملہ ہے۔ انٹیلی جنس اور سائبر سیل سے لیس پولیس کے نیٹ ورک کیلئے ایسے اشتعال انگیز تقاریر اور انہیں دینے والوں پر نظر رکھنا مشکل نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ بھی آسانی سے اس بات کا پتہ کر سکتے ہیں کیا اشتعال انگیز یا دہشت پھیلانے والے تقریر اور بیان دینے والے لیڈر آنے والے انتخابات میں حصہ ل

ے رہی کن پارٹیوں سے منسلک ہیں؟ سیاست میں مذہب کے غلط استعمال پر کافی ہنگامہ مچتا رہا ہے۔ ایک سیکولر ریاست ہونے کے ناطے ہندوستان کا قانون سیاست میں مذہب کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دیتا. اس کا مطلب یہ ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے، 153 بی اور ہندوستانی عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 123 اے اور 123 بی کے تحت مذہب کے نام پر لوگوں کا غلط مقصد کیلئے بلانے، دو مذاہب یا فرقے کے لوگوں کو آپس میں بھڑانے اور ایک مذہب کو دوسرے سے بہترین بتانے یا مذہب کے نام پر دھمکی دینا جرم ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے سپریم کورٹ نے الیکشن میں مذہب اور ذات کے نام پر ووٹروں سے اپیل کے معاملے میں فیصلہ دیا.۔ کورٹ نے کوئی ھدایت یا خصوصی گایڈ لاین تو نہیں دی ہے لیکن ایک موٹا سا اصول پیش کیا، جس کے تحت مذہب، فرقے یا ذات کے نام پر ووٹ کی اپیل پر روک لگادی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ بی جے پی کے لوگوں پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ حال میں بی جے پی کے ایم پی ساکشی مہاراج نے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف اشتعال انگیز اور قابل اعتراض بیان دیا اور اس بارے میں ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت بھی درج کی گئی ہے۔ اس درمیان، واٹس ایپ اور انٹرنیٹ پر بجنے والے اشتعال انگیز موسیقی، گانے، نغمے اور ایسے ویڈیوز سامنے آ رہے ہیں جو نہ صرف بکھیڑا کرنے کے قابل ہیں بلکہ وہ براہ راست طور پر دھمکی دینے والے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک گانا یہاں مثال کے طور پر پیش ہے. یہ بڑی تیزی سے انٹرنیٹ اور موبائل پر پھیل رہی ہے۔ (رام میرے رام، سیتا سیتا رام پون سیتارام، رگھوپتی راگھو بادشاہ رام، رام میرے رام) یوٹیوب پر ایسے ہی کئی اشتعال انگیز اور نفرت پھیلانے والے ساؤنڈ ٹریک اور ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں۔ آر ایس ایس سے مبینہ طور پر منسلک تنظیموں خاص طور پر وشو ہندو پریشد مبینہ طور پر اس کا استعمال کرتی رہی ہے. آنے والے انتخابات کو ذہن میں رکھ کر طرح طرح کے گانے، اشتعال انگیز ویڈیوز اپ لوڈ کئے جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ اب اس میں سے بہت فیس بک پر بلاک کئے جا چکے ہیں۔ یو ٹیوب پر یوگی آدتیہ ناتھ کے حامیوں کا یہ ویڈیو موجود ہے. اس تین لاکھ لائک ملے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا ایسے اشتعال انگیز بیانات، ویڈیو یا تقریروں کو روکنا سرکاری انٹیلی جنس یا پولیس کے نیٹ ورک کی ترجیح ہے۔ خاص کر اس ماحول میں جب مودی حکومت میں اکثریت کا دخل کا بڑھتا جا رہا ہے۔