کرناٹک عصمت دری کے بعد قتل کرنیوالا مجرم موت کی دہلیز پر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 21, 2016 | 20:11 شام

ہینڈلگا (شفق ڈیسک) سلسلہ وار قتل اور عصمت ریزی کے خطرناک مجرم کی سزائے موت کی تعمیل پر تیاریوں کی خبر ایک بار پھر مقامی میڈیا کی توجہ بن گئی۔ ہینڈلگا سنٹرل جیل میں سلسلہ وار قتل اور عصمت ریزی کے مجرم کو جو سابق میں سی آر پی ایف کا جوان تھا‘تختہ دار پر چڑھانے کی تیاریاں آخری مرحلہ میں ہیں۔ ریڈی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے دھاڑواڑ‘بدامی‘ وجئے پوری‘ اور کپل جیلوں سے جیل عہدیداروں کو یہاں طلب کیا جارہا ہے۔ اس قاتل کو جب سزائے موت سنائی گئی تب سے اسے جیل کی سخت نگرانی می

ں رکھا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کی درخواست رحم کی ایک اور اپیل مسترد کئے جانے کے بعد جیل حکام نے ریڈی کو عدالت عظمیٰ کے احکام کی ایک نقل حوالے کی تو تب اس زانی اور قاتل کے چہرے پر کوئی پشیمانی نہیں دیکھی گئی۔وہ صرف اتنا کہا تھا کہ بھگوان کی جانب سے جو کچھ ہوتا ہے اچھا ہوتا ہے۔ اومیش نے 1996ء میں چترا درگ میں ایک 16 سالہ لڑکی کی عصمت ریزی کے بعد قتل کردیا تھا اس کیس میں سنائی گئی سزائے موت کی سپریم کورٹ نے توثیق کی جبکہ ریڈی کو عصمت ریزی اور قتل کے21 کیسوں میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی جاچکی ہے۔ پولیس عہدیدار عصمت ریزی اور قتل کیسوں کی تحقیقات مکمل کر چکے ہیں کہ اومیش ریڈی‘ گرہست خواتین کو نشانہ بناتا‘ وہ دوپہر کے وقت گھروں میں داخل ہوتا جبکہ اس وقت گھر کے مرد حضرات کام پر جا چکے ہوتے وہ پانی اور پتہ پوچھنے کا بہانہ کرتے ہوئے مکانات میں داخل ہوتا اور چاقو کی نوک پر گرہست خواتین کی عصمت ریزی کرتا اور پھر انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیتا۔ چند کیسوں میں اومیش ریڈی نے عصمت ریزی کے بعد خواتین کے جسم پر موجود جیو لیری لے کر فرار ہوا تھا تا کہ اسے سرقہ کا واقعہ قرار دیا جاسکے۔ضلع چتر درگ کے موضع باسپا مالینگے میں بی اے اومیش یا اومیش ریڈی1969میں پیدا ہوا۔ اومیش‘کرناٹک‘گجرات اور مہاراشٹرا میں18 خواتین کے قتل اور عصمت ریزی کے20 واقعات میں ماخوذ ہے۔ اسے9 کیسوں میں سزا سنائی گئی ہے جس میں 1998 میں پنیامیں ایک گھریلو خاتون جیہ شری سبیا کی عصمت ریزی و قتل کیس بھی شامل ہے۔ قبل ازیں وہ سی آر پی ایف میں شامل ہوگیا تھا اس کو جموں و کشمیر میں ایک کمانڈنٹ کے گھر کا گارڈ مقرر کیا گیا تھا تا ہم اس نے کمانڈنٹ کی بیٹی کی عصمت ریزی کی اور گرفتاری کے بعد فرار ہو کر چتر درگ پہنچا جہاں اُس نے ڈسٹرکٹ آرمڈ پولیس(ڈی اے آر)میں ملازمت حاصل کر لی تب تک ریاستی حکومت اس کے مجرمانہ پس منظر سے واقف نہیں تھی۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ اومیش نے دیگر کئی جرائم کا ارتکاب کیا ہے مگر متاثرہ افراد ڈر و خوف کے سبب پولیس میں شکایت درج نہیں کروا رہے۔