عالمی عدالت بھی متنازعہ کئی ملک چھوڑ گئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 17, 2016 | 04:38 صبح

 

 

 

 

ہیگ(مانیٹرنگ)دنیا کے ممالک ایک ایک کرکے عالمی عدالت کو چھوڑنے لگے،تین افریقی ممالک کے خیرباد کہنے کے بعدروسی صدر نے بھی الگ ہونے کے فیصلے کی توثیق کردی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے حامیوں نے بدھ کو افریقہ کے تین ملکوں کی طرف سے اس ادارے سے الگ ہو جانے اور روس کی طرف سے اس کی طرف انتہائی معاندانہ رویے کے بعد اتحاد قائم رکھنے کی اپیل کی ہے،نیدرلی

نڈ کے شہر ہیگ میں عدالت کے رکن ممالک کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن جنوبی افریقہ، برونڈی اور گیمبیا کے الگ ہوجانے کا مسئلہ ہی زیر بحث رہا۔
عالمی دائرہ اختیار کی حامل اس عدالت کے سنہ 2002 میں قیام کے بعد سے اب تک کسی ملک نے اس سے علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا تھا جو کہ اب جنوبی افریقہ، برونڈی اور گیمبیا کی طرف سے سامنے آیا ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے بدھ کو ایک حکم نامے پر دستخط کیے جس میں اس عدالت سے علیحدہ ہونے کے فیصلہ کی توثیق کی گئی ہے۔
ماسکو نے روم کے قانون کی کبھی توثیق نہیں کی جس کی روح سے وہ کبھی اس عدالت کا رکن نہیں رہا حالانکہ روس نے سنہ 2000 کے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت روم کا قانون بنایا گیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت کے چیف پراسیکیوٹر فیٹو بنسودا نے تین افریقی ملکوں کے عدالت سے نکل جانے کے معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ روم کے قانونی نظام کا بحران نہیں ہے بلکہ ایک منصفانہ اور پر امن دنیا کے قیام کی مشترکہ کوششوں کے لیے ایک دھچکہ ہے۔
بنسودا جن کا تعلق گیمبیا سے ہے انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر جرائم کے انسداد اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس عدالت میں ملکوں کی شمولیت کو نہ صرف مستحکم کیا جائے بلکہ اس کو وسعت دی جائے،کینیڈا کے وزیر خارجہ سٹیفن ڈیون نے124 ملکوں کے مندوبین سے اپنے خطاب میں عدالت سےبھرپور تعاون کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ جو عناصر سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف مائیکل ماتھورا نے کہا کہ عدالت نے باقی زیادتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ صرف ایک خطے کے حالات پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وضاحت پیش کی جائے، 'قانون کی حکمرانی کے عالمی سطح پر اطلاق کے اصول کو ہی اس عدالت کی اساس ہونا چاہیے اور اگر وہ اس اصول کی پاسداری نہیں کرتی تو اس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔
عدالت کو اس حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ شام میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کر رہی تاہم اس عدالت کو کسی غیر رکن ملک میں مداخلت کا خود بخود اختیار حاصل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ شام اس عدالت کا رکن ملک نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں اٹھانے کے بارے میں ایک قرار داد کو روس اور چین نے مئی سنہ 2014 میں ویٹو کر دیا تھا۔
افریقی ملکوں میں بھی عدالت کے خلاف پائے جانے والے غصے کا سبب جرائم کی عالمی عدالت کی طرف سے دو افریقی ملکوں کے موجود صدور کے خلاف کارروائی کرنے پر اصرار ہے۔ ان میں کینیا کے صدر اوہور کنیاٹا اور سوڈان کے صدر عمر البشیر شامل ہیں۔