جسٹس ارشاد حسن خان دو سوالوں کے چار جواب ....فضل حسین اعوان
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع فروری 13, 2017 | 08:04 صبح
جسٹس ارشاد حسن خان
دو سوالوں کے چار جواب
فضل حسین اعوان
جسٹس ارشاد حسن خان
دو سوالوں کے چار جواب
فضل حسین اعوان
کھانے کی میز پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ارشاد حسن خان سے ملاقات ہوئی۔ قیوم نظامی بھی اس میز پر تھے۔ ارشاد حسن خان، مجید نظامی صاحب کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، مجید نظامی بلاشبہ اپنے کردار اور اقوال کے مطابق ”مسٹر صحافت“ ہیں۔ ارشاد حسن خان سے دوستی کا تذکرہ خود مجید نظامی مرحوم بھی کیا کرتے تھے۔ ارشاد حسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نظامی صاحب ان کے گھر تشریف لائے تو چائے پیتے ہوئے بولے یہ توبرطانیہ سے آمدہ ہے۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو انہوں نے کہا? How Can You Afford
یہ پتی میرے ایک دوست دے گئے تھے جس سے میں نے نظامی صاحب کو آگاہ کیا۔ جسٹس صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی مگر ان کے بارے میں اور ان کے فیصلوں کے حوالے سے کافی کچھ سن رکھا تھا۔ جسٹس صاحب، ماشاءاللہ اس عمر میں بھی بڑے ایکٹو اور چاک و چوبند ہیں۔ وہ کوئی واقعہ بیان کر رہے تھے جس سے پہلے کچھ یوں کہا: ”میں نے معذرت کرتے ہوئے عرض کیا....“ میں نے بھی ان کی اس بات سے حوصلہ پاکر کہا کہ میں بھی آپ سے معذرت کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔” بالکل بالکل آپ بات کریں“۔
”آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف، جنرل ضیاءکی طرح اپنے ”کو“ کو جائز قرار دلانے کیلئے سپریم کورٹ گئے آپ کی سربراہی میں سپریم کورٹ بنچ نے مشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت خود سے بن مانگے دیدی۔ اس پر جسٹس صاحب نے کہا ”آپ میرا جواب ریکارڈ کر لیں“۔ انہوں نے موبائل میں ریکارڈر آن کرکے سوال کرنے کو کہا۔ میں نے موبائل ریکارڈر آن کرکے سوال دہرایا۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ ریکارڈنگ کی وجہ سے آسانی کے ساتھ قرطاس ابیض پر منتقل ہو گیا۔ جسٹس ارشاد حسن نے میرے دو سوالوں کے چار جواب دیئے۔اس ملاقات کے دوتین دن بعد میں ان کے گھر پر ملا توانہوں نے ظفر علی شاہ کیس اور ججز اوتھ کے اقتباسات دکھاتے ہوئے نوٹ کرادیئے۔یوں یہ گفتگو ایک انٹرویوکی شکل اختیار کرگئی۔جسٹس صاحب نے فرمایا:۔
یہ بات قطعی غلط، قطعی غلط، قطعی غلط اور بے بنیاد اور لاعلمی کی بناءپر کہی جارہی ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ آپ پی سی او کو پڑھیں۔ جس میں صاف طور پر یہ تحریر ہے کہ جنرل مشرف کو بحیثیت چیف ایگزیکٹو یہ اختیار ہے کہ وہ آئین کو کسی وقت amend کرے۔ کسی لاءکو amend کرے۔ کسی آرڈر کو amend کرے ۔یہی تو چیز زیربحث تھی کہ جنرل مشرف کوکوئی اختیار ہے یا نہیں ہے۔ پی سی او ججز آرڈر ون کو آپ پڑھیں تو اس کی انٹرپرٹیشن یا اس کا سکوپ یہ تھا۔
That the Court is to run its affairs in accordance with the dictation of the Chief executive, and he has absolute discretion to amend the Constitution as he may please
ہمارے سامنے تو فیصلہ ہی یہ تھا یہ جو ججز آرڈر ہے، جو پی سی او ہے اس کے تحت آیا اسے آئین میں ترمیم کا اختیار ہے؟
اب ذرا لفظ بلظ ججز اوتھ آرڈر ملاحظہ فرمائیں
page 911
oath of office (judges) order 2000, 25 january 2000
in para 2 of the order it was stated that the chief executive has and shall be deemed always to have had, to power to amend the constitution.
it was further stated in the para 3 of order that judges who take oath shall be bound by the judges oath order, where as stated before general Musharraf asserted that he has power to amend the constitution.
Mr Khalid Anwar contended refer para 57, page 1001 that the Provision of proclamation and the P C O are to the authoritatively and definitively interpreted and that one possible interpretation is
"that under the P C O chief executive may amend the constitution make new laws post pone elections indefinitely and take whatever action he deems fit and appropriate..."
اس کے مطابق جنرل مشرف کو پورا اختیارتھا کہ وہ آئین میں ترمیم کرے، ہمیں اس پر فیصلہ کرنا تھا، یہ غلط ہے کہ اس نے آئین میں ترمیم کا اختیار مانگا ہی نہیں تھاجو سپریم کورٹ نے خود سے دیدیا۔ میں یہ کہوں گا کہ عدالتی فیصلہ جات میں غیر ذمہ دارانہ اورغلط بیان نہیں دینا چاہئیے۔ یہ کسی مہذب قوم کے شایان شان نہیں تاہم جب عدالت کا فیصلہ ہو تو اس کی کریٹیکل اپری سی ایشن ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ محض مفروضے کی بناءپر فیصلے کو بغیر پڑھے غلط الزامات لگا دیئے جائیں۔ بہرحال میرا کسی سے کوئی گلا نہیں ہر کوئی آزاد ہے اوراپنی سمجھ کے مطابق جو چاہے کہہ سکتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا ویو پوائنٹ ہے مگر آج میں نے جو اپنا ویو پوائنٹ دیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے دیا ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ نوائے وقت کی جانب سے آپ نے موقع فراہم کیا میں بیان کروں کہ ظفر علی شاہ کیس کی ججمنٹ میں کیا لکھا تھا۔ یہ سب کچھ سچ سچ اور سچ آپ کو بتا رہا ہوں آپ خود چیک کر لیں۔
بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ دانشور حضرات، سیاستدان اورپڑھے لکھے لوگ بھی بغیر پڑھے بہت سی باتیں کر دیتے ہیں۔یہ کورٹ کی ججمنٹ تھی،جس میں 11 جج بیٹھے تھے یہ ارشاد حسن خان کا فیصلہ نہیں تھا ۔ ہم نے تو انہیں ترمیم کا اختیاردیا ہی نہیں۔
جنرل مشرف کا یہ مو¿قف تھا کہ انہیں آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے۔ کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ تمہیں ترمیم کا قطعی اختیار نہیں۔ آپ کو یہ سن کے حیرت ہو گی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ایک طریقہ ہوتا بات کہنے کا اور تحریر کرنے کا۔ سلجھے انداز میں بات کی جاتی ہے۔ مثلاً میں آپ سے غلط بیانی کر رہا ہوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ جھوٹے ہیں۔ یہ بھونڈا انداز ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے آپ سچ نہیں بول رہے۔ ہم نے فیصلے میں دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ وہ لوگوں نے پڑھا ہی نہیں۔ہم نے لکھا.
The Constitutional Amendments by the Chief Executive can be resorted only to if the constitution fails to provide a solution for attainment of his declared objective(seven point Agenda) ’
ظفرعلی شاہ کیس میں خالد انور وکیل تھے،خالد انور اعلیٰ درجے کے وکیل اور شائستہ انسان ہیں۔ وہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں۔ معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں خود الجھتے ہیں نہ کورٹ کو الجھانے کی بات کرتے ہیں۔ حقائق کو مدنظر رکھ کر دلائل دیتے ہیں۔ ظفر علی شاہ کیس کئی ماہ تک سنا گیا اور تمام وکلاءکو بلا امتیاز پورا پورا موقع دیا گیا اور ان کے تمام دلائل کو لفظ بہ لفظ ریکارڈ کیا گیا۔ ظفر علی شاہ کیس اس لحاظ سے ایکمنفرد اور ممتاز کیس تھا جس میں وکلاءصاحبان کے دلائل من و عن تحریر کئے گئے اور پھر ایک ایک نکتے کو زیر بحث لا کرجامہ فیصلہ دیا گیا اور ایریٹو پاور 1219 سے 1223 تک موجود ہیں۔
مشرف کے سیون پوائنٹ ایجنڈے کے متعلق خالد انور نے یہ کہا کہ یہ ایجنڈا اچھا ہے۔ یہ تو مسلم لیگ ن کے منشور میں شامل ہے۔ یہی پیپلزپارٹی کے منشور میں بھی ہے۔خالد انور نے کہا، 7 نکاتی ایجنڈے کو ضرور نافذ ہونا چاہیے۔ ہم اس کے حق میں ہیں لیکن اس کو قانون کے مطابق نافذ ہونا چاہیے، قانون کے خلاف نہیں۔مسٹر خالد انور کے یہ الفاظ ریکارڈ اور فیصلے کا حصہ ہیں:۔
Para 73(1)(a) That the 7 point agenda is the best interest of the country whih take place under the law and not in violation of the law para (10)
فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل مشرف کوآئیں میں ترمیم کا اختیار ہے لیکن یہ اختیار اس حد تک ہے کہ وہ اپنے سات نکاتی ایجنڈا کو لاگو یا نافذ کرے:
What the court decided Provided no Provision in constitution to giving effect 7 point agenda in other words.
مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے منشور میں بھی یہ سب کچھ ہے جو مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے میں تھا۔ خالد انور نے خود اس پر بحث کی کہ آپ سات نکاتی ایجنڈے لاگو کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے بھی کہا کہ آپ Implement کریں، اس کے لئے اگر آپ نے آئین میں ترمیم کرنی ہے تو کریں۔ Provided آئین میں کوئی Provision ایسی ہو جو آپ کو نہ کرنے دے۔ اس کا کیا مطلب ہوا کہ آئین میں ترمیم کی اجازت نہیں دی۔ میں ایک جج ہوں۔ آج بھی ریٹائر ہونے کے باوجود ایک ڈسپلن کا پابند ہوں۔ غلط یا صحیح میں نے یہ سمجھا کہ مجھے تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ایک فیصلہ کر دیا پڑھے لکھے لوگ موجود، ہیں ججز ہیں، کورٹس ہیں، صحافی ہیں، سیاستدان ہیں، انٹیلیکچوئل ہیں وہ فیصلہ پڑھ سکتے ہیں کہ جو کہا گیا صحیح ہے ۔میں ہمیشہ ہی طالب علم رہا ہوں۔
سوال: مشرف نے اس فیصلے کا غلط استعمال تو نہیں کیا؟
جواب۔ یہ بڑی اچھی بات کی، اس فیصلے کا چونکہ سب نے ایک جنرل تاثر دے دیا کہ سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں مشرف کو ترمیم کا اختیار دے دیا ہے تو پھر انہوں نے ایل ایف او نکال دیا۔ جس سے میں متفق نہیں تھا۔اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھا۔ جب تک میں چیف جسٹس پاکستان رہا اس وقت تک ظفر علی شاہ کیس فیصلے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ جب میں نے دیکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں ہے تو میں ایل ایف او کے تحت پارلیمنٹیرین کو کیسے حلف دوں چنانچہ میں نے بطور چیف الیکشن کمشنر تحریری طور پر انکار کر دیا کہ میں ان پارلیمنٹیرین کو اوتھ نہیں دوں گا۔ تمام اخبارات میں یہ لیڈنگ خبر تھی کہ چیف الیکشن کمشنر نے اوتھ دینے سے انکار کر دیاہے۔ اس کی وجہ یہی تھی لیکن یہ کہنا ضروری نہیں تھا۔
میرے دوسرے سوال سے پہلے ہی جسٹس صاحب نے خود کہا:۔
ایک تو میرے خلاف ہمیشہ سے یہ الزام تھا کہ مشرف کو میں نے اپنی طرف سے ترمیم کا اختیار دے دیا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ دیکھیں بھئی کسی نے ٹائم نہیں مانگا اور ارشاد حسن خان نے مشرف کو تین سال دے دیئے۔ مشرف کو فیور کرنے کے لئے تین سال دے دیئے کہ جاﺅ بھئی عیش کرو، یہ بھی غلط ہے۔ کیس کے دوران میں نے ہر وکیل سے پوچھا کہ یہ معاملہ بڑی حساس نوعیت کا ہے، بہت اہم ہے، اس کے دوررس نتائج ہیں۔ آپ میری مدد کریں۔تین مہینے کی سماعت کے اختتام پر ہم نے کہا ٹیک اوور تو ہو گیا جو ہو چکا اس کو تو ریورس نہیں کر سکتے۔ اب اس کو کیا کریں جو درست ہو، آئین کے مطابق ہو اور لوگوں کی بھی امنگوں کے مطابق ہو۔ آئیں رائے دیں تاکہ اس کی روشنی میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔ہم نے خالد انورسے پوچھا آپ بتائیں۔ انہوں نے کہا جو فیصلے میں تحریر ہے۔
Than millions of people will disenfranchised
اور اس کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا ان کو حکم دیں کہ الیکٹورل رول اپ ڈیٹ کریں۔ اٹارنی جنرل کے بقول چیف الیکشن کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمیں اس کام میں دو سال لگیں گے کیونکہ ساری الیکٹورل رول کو اپ ڈیٹ کرانا ہے Delimitation کرانی ہے، ہم نے objedtion لینے ہیں۔ الیکٹرول رول کے اپ ڈیٹ ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا میں نے کہا کہ جب ہم اس چیز کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں کہ الیکٹورل رول اپ ڈیٹ نہیں ہیں اور یہ سب کا مو¿قف ہے کہ milion of people will disenfranchised۔تو ہم کیسے کہہ دیں کہ کل الیکشن کرا دو۔ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ فوراً الیکشن کرا دیں۔ مگر الیکٹورل رول اپ ڈیٹ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کہتے ہیں انہیں دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہم تین سال دیتے ہیں اور ان تین سال کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہو گا۔ اس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہو گئے تھے باقی اڑھائی سال میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ دو سال الیکٹورل رول اپ ڈیٹ کرنے میں لگنے تھے باقی چھ ماہ میں انتخابی عمل مکمل ہونا تھا۔ معاملہ ان کو گھر بھیجنے کا تھا ورنہ ایوب خان اور ضیاءالحق کے مارشل لاﺅں کا دور سب کے سامنے ہے۔ ضیاءالحق نوے دن کے لئے آئے تھے د س سال رہے۔ اگر کریش نہ ہوتا تو مزید دس سال بھی شاید رہتے۔ اب دیکھیں اس فیصلے کی ری ویو ہوئی۔رول یہ ہے کہ ریویو وہی وکیل کر سکتا ہے جس نے اوریجنل پٹیشن کی ہو۔ خالد انور نے اوریجنل پٹیشن کی تھی۔ انہوں نے ریویو میں جانے سے انکار کر دیا۔ وہ ریویو میں کیسے جاتے، انہوں نے جو کہا ہم نے مان لیا۔ ہم نے پٹیشن ان کی مان لی۔ انہوں نے ٹائم فریم مانگا۔ ہم نے ٹائم فریم دے دیا۔ انہوں نے کہا مشرف کو ترمیم کا اختیار نہیں۔ ہم نے کہا نہیں ہے۔ بہت سی شرائط ترمیم کیلئے لگا دیں جو پوری کرنی ناممکن تھیں۔ ہم نے کہا 31 دسمبر تک الیکشن کرائیں، جمہوری اداروں کو بحال کریں۔ The court ordered "The Validity granted to the regime is inter linked and intertwined with the holding of elections".
وسیم سجاد صاحب تشریف لے آئے۔ ہم نے کہا آپ کو ری ویو کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ خالد انور پٹیشنر ہے وہ ریویو کرے۔ وسیم سجاد نے کہا کہ خالد انور نے کہا ہے وہ نہیں جائیں گے۔
شریف الدین پیرزادہ پیش ہوئے تو ان سے میں نے کہا کہ آپ بتائیں 31 دسمبر سے پہلے پہلے الیکشن کرائیں گے یا نہیں کرائیں گے۔ دسمبر سے پہلے پہلے جمہوری ادارے بحال اور پاور ٹرانسفر کریں گے یا نہیں، جائیں جنرل مشرف سے پوچھ کے آئیں۔ انہوں نے کہا کوشش کریں گے۔ میں نے کہا یہ نہیں پوچھا کہ کوشش کریں گے یا نہیں کریں گے۔ یہ پوچھا ہے کہ الیکشن کرائیں گے یا نہیں کرائیں گے۔ ایک سیدھا سوال پوچھ رہا ہوں 31 دسمبر سے پہلے پہلے الیکشن کرا کے جمہوری ادارے بحال کریں گے یا نہیں۔ ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ جواب ریکارڈ کریں گے اگر نہیں کریں گے تو جو validity دی گئی ہے وہ واپس لے لیں گے اور پھر پارلیمنٹ نے بھی سترہویں ترمیم کر دی۔ پھر بھی جناب فضل حسین اعوان صاحب آپ تمام سوالات مجھ سے پوچھ رہے ہیں تاہم بطور صحافی یہ آپ کی ڈیوٹی ہے مجھے آپ کے سوالات ناگوار محسوس نہیں ہو رہے۔
سوال: آپ کے الزام یہ بھی لگتا ہے کہ آپ کو انعام کے طور پر چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا۔
ارشاد حسن خان:۔ یہ میرے سامنے رزق ہے، اس سے کوئی بڑی بات نہیں کہ انسان خود کو بددعا دیدے۔ میں عمر کے اس حصے میں ہوں، ہر کسی نے اللہ کے پاس جانا ہے۔ یہ بھی قطعی غلط ہے۔ عینی گواہ بھی موجود ہے۔ سیکرٹری قانون فقیر محمد کھوکھر تھے۔ اس زمانے میں چیف آف جنرل سٹاف جنرل جیون خان، جیوے کے نام سے معروف تھے۔ کسی سلسلے میں ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں آپ کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیں۔ میری ریٹائرمنٹ میں چھ ماہ باقی تھے۔ میں نے کہا کہ میں عہدے پر نہیں جاﺅں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے جسٹس سجاد احمد جان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ میں چیف الیکشن کمشنر نہیں بنوں گا۔ انہوں نے کہا آپ کسی چیز سے خائف نہ ہوں۔ آپ اپنے معاملات میں خودمختار ہوں گے۔ ہم آپ کو یہ یقین دلا دیتے کہ آزادانہ کام کریں گے۔ آپ کے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوا یہ معاملہ کوئی اور احسن طریقے سے سرانجام بھی نہیں دے سکتا۔ یہ بات ہوئی اور جلد ہی جنرل جیون حادثے میں فوت ہو گئے۔ ان کی جگہ جنرل حامد جاوید آگئے۔ میری ریٹائرمنٹ میں ایک مہینہ رہ گیا تو شریف الدین پیرزادہ تشریف لائے۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے چیف جسٹس کا Tenure extend کر دیں۔ میں نے کہا میں اسے قبول نہیں کروں گا۔ اگر مجھے چیف الیکشن کمشنر بننے کی لالچ ہوتی تو میں کیوں نہ چیف جسٹس پاکستان کے طور پر پیش کی گئی توسیع کو قبول کر لیتا۔میں چیف جسٹس کا ٹینیور لیتا یا چیف الیکشن کمشنر بننا پسند کرتا۔ اس پیشکش پر میرا رنگ لال پیلا ہو گیاتھا۔ خدا جنت نصیب کرے میرے پاس حفیظ پیرزادہ آئے، بڑے پائے کے وکیل اور بہادر انسان تھے۔ انہوں نے کہا سنا ہے آپ کی ایکسٹنشن ہو رہی ہے، میں نے کہا ارشاد حسن خان نہیں ہو گا جو ایکسٹنشن قبول کر لے۔ اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہوئی کہ ارشد حسن خان کو اگر ایکٹشن دی گئی تو وہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اس کے بعد میں ریٹائر ہو گیا۔ میں دو سال اس عہدے پر رہا۔ میرے پاس ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ دو ماہ پہلے صدر کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز تشریف لائے۔ انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ چیف الیکشن کمشنر بنیں۔ میں نے کہا یہ میرے لئے اور آپ کے لئے مشکل ہو گا کیونکہ میں نے کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرنی۔ انہوں نے مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ الیکشن کرانے کا آپ ہی نے آرڈر کیا ہوا ہے۔ 31 دسمبر سے پہلے پہلے الیکشن کرائیں، فری اینڈ فیئر کرائیں۔ ایسے الیکشن کرانے کے لئے آپ سے زیادہ موزوں انسان اور کون ہو گا۔میں ان حالات میں چیف الیکشن کمشنر بنا۔ یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے، میں حلفاً کہتا ہوں، یہ جو میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا وہ مجھے نصیب نہ ہو اگر میری کوئی ڈیل ہوئی ہو۔چیف الیکشن کمشنر کی مدت تین سال سے چار سال کرنے کی تجویز تھی،مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ میں چار سال کی بالکل حمایت نہیں کرسکتا،یوں یہ تجویز ایل ایف کا حصہ نہ بن سکی۔
اس کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس ارشاد حسن نے کہا کہ میرے اوپر ایک اور الزام بھی ہے کہ کوئٹہ رجسٹری میں میری سربراہی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف پٹیشن سماعت کے لئے منظور کر لی گئی تھی۔ اس بنچ میں میرے ساتھ جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ رفیق تارڑ نوٹوں سے بھرا بریف کیس وہاں لے گئے تھے،یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ میرے اور رفیق تارڑ صاحب کے مابین کبھی اچھے مراسم نہیں رہے۔ آپس میں”لگتی“ رہی ہے تاہم اب تعلقات میں کافی بہتری آچکی ہے۔ مزید براں میںکوئٹہ بنچ کوہیڈ ضرور کر رہا تھا لیکن میرے ساتھ خلیل الرحمن خان صاحب اور ناصر اسلم زاہدصاحب تھے۔ یہ دونوں اچھی شہرت کے مالک ہیں، سب جانتے ہیں یہ میرے زیر اثر نہیں تھے۔ یہ کوئٹہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا نہ کہ صرف میرا فیصلہ تھا۔ یہ ایک عبوری فیصلہ تھا جس کو سپریم کورٹ کے ایک لارجر بنچ نے جناب سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں کنفرم کیا۔ اس میں غالباً 11 جج تھے۔