منی پور کی آئرن لیڈی‘ اروم شرمیلا کی شکست کا سبب کیا بنا؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 12, 2017 | 17:05 شام

لندن(بی بی سی)انڈیا میں ایک عرصے تک مزاحمت کی علامت کہی جانے والی اروم شرمیلا سالوں پر محیط اپنی بھوک ہڑتال توڑی اور پھر انتخابات میں شامل ہوئيں۔ان کی جیت کی امید کرنا ہوا میں شیش محل بنانے جیسا تھا۔مجھے تو لگتا ہے کہ اروم شرمیلا کو بھی یہ احساس ہو چکا تھا کہ ان کی نئی جدوجہد میں ’فتح‘ محض ایک لفظ ہے۔لیکن چونکہ لڑنا ان کی عادت کا حصہ ہے اس لیے وہ آخری وقت تک لڑتی رہیں۔

مگر صرف لڑنے سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، فتح یاب ہونے کے لیے حکمت عملی بھی چاہیے جو 44 سالہ انسانی حقوق

کے کارکن کے پاس نہیں تھی۔ان کے انتخابی قافلے میں حامیوں کی تعداد سکیورٹی کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہوتی، تقریر سننے یا ملنے والوں کی بھیڑ کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا اور جو نظر بھی آتے ان میں سے زیادہ صرف 16 طویل سالوں تک بھوک ہڑتال کرنے والی ’دیوی‘ شرمیلا کو دیکھنے کے لیے آتے۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جس اروم شرمیلا نے ریاست میں فوج کو حاصل مخصوص حقوق کے خاتمے کے لیے 16 سالوں تک کھانے کی قربانی دی اور جسے زندہ رکھنے کے لیے ناک کے راستے غذا فراہم کی جاتی رہی اور جو محض آدھے گھنٹے سے کم وقت کے لیے بیرونی لوگوں سے مل پاتی تھیں وہی شرمیلا گذشتہ سال بھوک ہڑتال توڑنے کے فیصلے کے بعد منی پوريوں میں ’باہر والی‘ قرار دی گئیں۔

کئی لوگوں نے مجھ سے بات چیت کے دوران کہا کہ ان کے منگیتر یا بوائے فرینڈ ڈیسمنڈ آئر لینڈ میں رہتے ہیں، وہ منی پوری نہیں ہیں۔

'غیر ملکی' کا جو مسئلہ سونیا گاندھی کے معاملے میں کچھ لوگوں نے کبھی اٹھایا تھا وہ اروم اور ڈیسمنڈ کے معاملے میں دوسری طرح سے کام کر رہا تھا۔

ڈیسمنڈ کے جاسوس ہونے، اروم شرمیلا کو بھوک ہڑتال توڑنے کے لیے منانے کی بازگشت بھی منی پور کی گلیوں میں گونجتی رہی۔

اروم کے پاس نظریہ تھا، انھوں نے منی پور کے سب سے زیادہ طاقتور سیاستدان ایبوبی سنگھ کو چیلنج کیا، کچھ اسی انداز میں جیسے عام آدمی پارٹی کے کنوینئر اروند کیجریوال نے لوک سبھا انتخابات کے دوران نریندر مودی کو کیا تھا۔

اروند کجریوال کو بھی حیت حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے پاس ایک حکمت عملی تھی۔

کیجریوال کے حامیوں کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا پر موجود تھا، دولت کی وہ کمی نہیں تھی جو اروم شرمیلا کے پاس نظر آتی تھی۔

اس لیے کیجریوال کا نام ہر وقت سنائی دے رہا تھا، بنارس میں ان کی انتخابی مہم کے دوران اور ہار کے اعلان تک اور اس کے بعد بھی۔

اروم کا نام مقامی میڈیا میں نہیں لیا جا رہا تھا البتہ بیرونی میڈیا میں ان کا ذکر ضرور تھا، اور یہ بات بھی مقامی باشندوں کو طنز و مزاح کے اسباب فراہم کر رہی تھی۔

اروم وزیر اعلیٰ بننا چاہتی تھیں، لیکن وزیر اعلیٰ کی دعویداری کرنے والی سیاسی جماعت پیپلز ریسرجینس اینڈ جسٹس اتحاد نے انتخابی میدان میں محض تین ہی امیدوار اتارے تھے۔ووٹروں نے اروم شرمیلا کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن کیا وہ سنجیدہ تھیں؟انتخابات کے دوران، ان کی باتوں میں ڈیسمنڈ اور الیکشن کے بعد شادی کی باتیں بار بار ہوتی رہی۔لیکن ڈیسمنڈ اروم کی زندگی کی نئی جدوجہد کے دوران کہیں نہیں تھے۔

نتیجہ سامنے ہے کہ اروم شرمیلا کو محض 90 ووٹ ملے۔ ان کی پارٹی کے باقی دو امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ نوٹا کو، یعنی ویسے لوگ جنھیں کوئی بھی امیدوار پسند نہیں تھا، 143 لوگوں نے اپنے ووٹ دیے تھے۔