عشرت العباد نے کمال کا کچھا چھٹا کھول دیا،کھدال کا لقب تازہ کیا،جماعت اسلامی سے پیار کی باتیں , فوج کومکھن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 19, 2016 | 13:18 شام

 

 

کراچی(مانیٹرنگ): گورنر سندھ عشرت العباد خان نے کہا ہے کہ 12 مئی 2007 میں جس کسی نے قتل عام کیا، اس کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو چوراہے پر لٹکائیں گے، جبکہ کراچی سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسلحہ پکڑا گیا، یہ اسلحہ فوج سے لڑنے کیلئے خریدا گیا تھا۔

کراچی میں ٹراما سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہا کہ کراچی کی ترقی میں بہت کلیدی کردار سابق سٹی

ناظم نعمت اللہ خان کا ہے۔

عشرت العباد خان نے مزید کہا کہ نعمت اللہ خان نے ترقیاتی کام نہایت ایمانداری سے کیا۔

خیال رہے کہ کراچی میں 2001 سے 2005 تک جماعت اسلامی کی بلدیاتی حکومت رہی، اس دور میں شہر کے ناظم (میئر) نعمت اللہ خان تھے، جو اب جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔

 

نعمت اللہ خان کی تعریف کرتے ہوئے گورنر سندھ نے مزید کہا کہ انہوں نے شہر کی مارچ 2005 تک خدمت کی، اسی سال شہر میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے، اور اکتوبر 2005 میں نئی بلدیاتی حکومت قائم ہوئی۔

عشرت العباد کا کہنا تھا کہ نعمت اللہ خان نے جس رفتار سے کراچی کی ترقی کا عمل شروع کیا تھا، 2005 میں بننے والی شہری حکومت نے اس رفتار کو برقرار نہیں رکھا، اور شہریوں کو مایوس کیا۔

انہوں نے کہا کہ نعمت اللہ خان بہترین، ایماندار اور خاندانی آدمی ہیں، انہوں نے کے تھری کا منصوبہ شروع کیا تو اس میں 75 ہزار کروڑ روپے کی بچت کی، ان کی ہمیشہ سے عزت کرتا ہوں، ان کی سوچ بہت اچھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کو کالم نگار کاؤس جی نے مصطفیٰ کھدال کا نام دیا تھا، کیونکہ وہ کراچی سے پیسہ نکال رہے تھے، اور ملائیشیا اور لندن بھیج رہے تھے۔

واضح رہے کہ 2005 میں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے کامیابی حاصل کی تھی، اور شہر کے ناظم (میئر) مصطفیٰ کمال بن گئے تھے، جو 2010 تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے تھے۔

عشرت العباد نے کہا کہ 2009 میں کراچی کی شارع فیصل پر 35 کروڑ روپے کا ایک فلائی اوور تعمیر کیا گیا تھا جبکہ بلکل اسی طرح کا ایک اور فلائی اوور شارع فیصل پر 2012 میں تعمیر ہوا جس کی لاگت 28 کروڑ روپے آئی، یہ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ کتنی نااہلی دکھائی گئی، جبکہ بدعنوانی کی سطح بھی اوسط ہوتی ہے۔

گورنر سندھ کے مطابق لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اربوں روپے ملائیشیا منتقل کیے گئے اور پیسے کا غلط کاموں میں استعمال کیا گیا۔

کراچی کے ایف ڈبلیو او ٹراما سینٹر کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مصطفیٰ کمال کا نام لیے بغیر گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کے لیے مشورہ ہے کہ جو کہتے ہیں ان کی ٹھیکیداری میں کام ہوئے، ان کے دور میں صرف کرپشن ہوئی تھی، جبکہ تمام منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے، لیاری ایکسپریس وے اور کے-فور کا بیڑہ غرق کیاگیا، یہ تمام صرف اپنی کمپنی کو ٹھیکا دلوانے کے لیے کیا، قومی مفاد کے منصوبوں کو صرف تھوڑے سے پیسوں اور کرپشن کے لیے تاخیر کا شکار کیا۔

یاد رہے کہ 2005 سے 2010 تک کراچی کے ناظم رہنے والے مصطفیٰ کمال نے حالیہ دنوں میں گورنر سندھ عشرت العباد کو صوبے میں تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال کر فوری طور پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

کراچی میں پانی کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ اگر 2006 میں کے فور منصوبہ شروع ہوتا تو آج مسائل حل ہو چکے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ 2005 میں جب نئی بلدیاتی حکومت آئی تو امید تھی کہ گزشتہ مقامی حکومت کی طرح یہ بھی عوام کی خدمت کریں گے لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ ٹھیکیدار لوگ ہیں، ان کا کوئی وژن نہیں تھا، انہیں سابقہ حکومت سے بنے بنائے پروجیکٹ ملے تھے، نعمت اللہ خان نے وہ منصوبے شروع کیے تھے انہوں نے اس پر ٹھیکیداری کی تھی، اگر کسی اور کو بھی پیسے دیئے جاتے تو وہ ان منصوبوں کو کرپشن کے بغیر بنا سکتا تھا۔

مصطفیٰ کمال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کے بقول 2012 میں انہیں پتہ چلا کہ ان کی پارٹی قائد کا تعلق را سے ہے، لیکن وہ پھر بھی 2012 سے 2014 تک اسی پارٹی کے سینیٹر رہتے ہیں،اس کے بعد وہ ڈر کر بھاگ گئے ہوں گے، بعد میں انہیں بلا کر سختی کرکے سینیٹر شپ سے استعفیٰ لیا گیا وہ استعفیٰ نہیں دے رہے تھے، ان سے بھی پوچھا جائے کہ 2012 میں ان کو اتنی اہم بات پتہ چلی تھی تو اسی وقت کمرے سے نکل جاتے اور کہتے کہ میں ایسی جماعت میں کام نہیں کرتا۔

12‘ مئی کے ملزمان کو چوراہے پر لٹکائیں گے‘

 

کراچی میں قیام امن کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا تھا، اس کی منصوبہ بندی اس وقت کے ڈی جی رینجرز (موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی) رضوان اختر کی مشاورت سے کی گئی تھی، ان کی سربراہی میں ہی آپریشن شروع کیا گیا، اس میں 4 اہداف مقرر کیے گئے تھے، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کو پہلے ختم کرنا تھا جبکہ اس میں اب سہولت کار بھی پکڑے گئے، اب 80 فیصد جرائم کو کنٹرول کر لیا گیا۔

شہر میں جاری آپریشن کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آخری جرائم پیشہ کے خاتمے کے لیے کارروائی کی جائے گی، لیکن آپریشن سے مستحکم امن قائم نہیں ہو سکتا ہے، مستحکم امن کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ مختلف جرائم کے ایک ایک کیس کو اٹھایا جائے اور ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

کیسز کے حوالے سے گورنر نے کہا کہ 12 مئی 2007 میں جس کسی نے قتل عام کیا، اس کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو چوراہے پر لٹکائیں گے، ان کو پھانسی دے کر عبرتناک سزاء دیں گے، تاکہ کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو کہ 12 مئی جیسا سانحہ کیا جائے۔

یاد رہے کہ 2007 میں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر مختلف جماعتوں نے ان کے حق میں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ریلی منقعد کی تھی، اس دن فائرنگ سے 50 کے قریب مختلف جماعتوں کے کارکن ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحہ

کراچی کے صنعتی علاقے کی بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے حوالے انہوں نے کہا کہ 300 بے قصور انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا، اس کے بعد فیکٹری مالکان سے پیسے لیے گئے، لیکن یہ پیسے ہلاک شدگان کے لواحقین کو دینے کے بجائے کھا گئے، جبکہ اسی پیسے سے اسلحہ بھی خریدا گیا اور عیاشی بھی کی گئی۔

گورنر سندھ نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ اس میں کوئی شخص ملوث ہوگا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی، ڈی جی نیب کو کارروائی کی ہدایت کر دی ہے کہ اس واقعے کی جے آئی ٹی سے کسی بھی مصلحت کے تحت کسی کا نام نکالا گیا ہے، اس کو واپس ڈالا جائے، اور کسی کو نہ بخشیں۔

ڈی جی رینجرز اور ڈی جی نیب کی جانب سے وعدہ کرتے ہوئے عشرت العباد نے مزید کہا کہ پوری دیانت داری سے کارروائی کریں گے، ذمہ دار افراد چاہے کوئی بھی ہو، کو گرفتار کیا جائے گا۔

واضح رہے 2012 میں بلدیہ ٹاون میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی ہوئی تھی، جس میں 300 مزدور زندہ جل کر ہلاک ہوئے تھے، بعد ازاں گزشتہ برس ایک جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں انکشاف ہوا تھا کہ یہ آتشزدگی کا واقعہ نہیں تھا بلکہ فیکٹری میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء اور کارکن ملوث ہیں، جنہوں نے بھتہ نہ ملنے پر آگ لگائی۔

‘کراچی سے پکڑا گیا اسلحہ فوج سے لڑنے کیلئے خریدا گیا تھا‘

عشرت العباد خان نے تیسرے کیس کے حوالے سے کہا کہ کراچی سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسلحہ پکڑا گیا، کافی حد تک معلومات حاصل ہو چکی ہیں کہ یہ اسلحہ کس دور میں خریدا گیا، کہاں سے خریدا گیا، کن لوگوں نے خریدا، یہ چھری کانٹے تو تھے نہیں، یہ کوئی ٹی ٹی پستول تو تھی نہیں، یہ اینٹی ائر کرافٹ گنز، کلاشنکوف، مشین گنز، راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اسلحہ ٹارگٹ کلنگ کے لیے نہیں خریدا گیا تھا، بلکہ یہ اسلحہ فوج سے لڑنے کے لیے خریدا گیا تھا، یہ فوجی اسلحہ ہے جو کہ فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے لڑنے کے لیے خریدا گیا تھا۔

گورنر نے مزید بتایا کہ اس اسلحے کی فرانزک ٹیسٹ سے کسی حد تک نشاندہی ہو چکی ہے کہ اس کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کی تنظیمی کمیٹی کے کچھ سیاسی ذمہ دار اور ان کے بڑے عہدیداران تھے، ان کے نام ابھی سامنے آئے ہیں کہ یہ اس کی خریداری میں پیچھے تھے، کن لوگوں نے خریدا اور سپلائی کیا تھا ان کے نام بھی معلوم ہو گئے ہیں، فیصلہ کیا ہے کہ چائنا کٹنگ کرکے یہ اسلحہ خریدنے اور چائنا کٹنگ کرنے والوں کو مثالی سزاء دیں گے، تاکہ کسی بڑے سے بڑے طرم خان کو ہمت نہ ہو کہ پاکستان کی سیکیورٹی اداروں سے لڑنے کا سوچے بھی۔

 کراچی میں بند مکان سے اسلحے کی بڑی کھیپ پکڑی گئی

خیال رہے کہ 5 اکتوبر کو پولیس نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ایک بند گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا، گھر کی ٹنکی سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا، جس کو ٹرکوں میں پولیس سینٹر منتقل کیا گیا، کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر نے بتایا تھا کہ یہ اسلحہ 9 اور 10 محرم الحرام کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونا تھا۔

تعصب کی بنیاد پر قتل

چوتھے کیس کے حوالے سے سندھ کے گورنر عشرت العباد نے کہا کہ اس میں کراچی میں تعصب کی بنیاد پر جو قتل ہوئے تھے ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008 سے نومبر 2011 تک ایک سائیکل چلتا تھا جس میں کبھی بے قصور پختون مارے جاتے تھے، کبھی اردو بولنے والوں کو مارا جاتا تھا جبکہ کبھی کسی اور کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جاتا تھا، اور پھر وہ جھگڑا سیاسی بن جاتا تھا، اور مرنے والوں کو دفن کرکے بھول جاتے تھے۔

عشرت العباد نے بتایا کہ اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وقت کے ان فسادات کے پیچھے جس بھی سیاسی جماعت کے عہدیداران ہوں،تفتیش میں حقائق سامنے آنے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور عوام دیکھے گی کہ ان کو کیسے سزاء دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی کافی تحقیقات موجود ہیں ، اس کیس کو دوبارہ کھول رہے ہیں، اس کیس میں ملوث ہرشخص کو دنیا کے کسی بھی کونے سے پکڑ کر لایا جائے گا اور عبرت ناک سزاء دی جائے گی۔

’اسٹیبلشمنٹ کا آدمی قانونی، آئینی طور پر ہوں‘

گورنر سندھ نے حکیم محمد سعید کیس بھی دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔

گورنر سندھ نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید کسی سیاسی جماعت کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ یہ سیاہ دھبہ جنرل راحیل شریف پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا بہترین پرفیشنل ریکارڈ ہے، کوئی ان پر سیاہ دھبہ نہیں لگا پائے گا، جو کام ہوگا قومی مفاد میں سخت ہاتھوں سے ہوگا۔

عشرت العباد کے مطابق مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اسٹیبلشمٹ کا آدمی ہوں، اسٹیبلشمنٹ کا آدمی میں قانونی اور آئینی طور پر ہوں، میرا شجرہ نصب صدر پاکستان سے ملتا ہے، صدر پاکستان فوج کے سپریم کمانڈر ہیں، تو میں بھی اسی کا آئینی اور قانونی طور پر حصہ ہوں، میں نے کسی کے لیے نہیں ملک کیلئے ایمانداری اور شرافت کے ساتھ کام کیا ہے۔

عشرت العباد کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2002 میں سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا، اس وقت عشرت العباد ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی تھی، 2015 تک عشرت العباد ایم کیو ایم میں ہی تھے تاہم 22 اپریل 2015 کو پارٹی کے قائد الطاف حسین نے گورنر سندھ سے اعلان لاتعلقی کرکے ان کو ایم کیو ایم سے خارج کر دیا تھا۔

دوسری جانب سابق سٹی ناظم (میئر) مصطفی کمال نے بھی رواں سال مارچ 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی الگ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنانے کا اعلان کیا، اب تک ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی کے 6 ارکان، قومی اسمبلی کے ایک رکن سمیت کئی اہم ترین رہنما ان کی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔

 

علاوہ ازیں دسمبر 2015 میں کراچی میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے تھے، ان میں جماعت اسلامی کی جانب سے 'میئر تو ایماندار ہونا چاہیے' کا انتخابی نعرہ لگایا گیا جبکہ ایم کیو ایم نے 'میئر تو اپنا ہونا چاہیے' کا نعرہ لگایا تھا، تاہم جماعت اسلامی نے اپنی مہم میں نعمت اللہ خان کی تصاویر استعمال کی تھیں جبکہ ایم کیو ایم نے کسی بھی جگہ مصطفیٰ کمال کا نام یا تصویر استعمال نہیں کی تھی، ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وسیم اختر کو میئر نامزد کیا، جو کہ اس وقت دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں جیل میں ہیں، انہوں نے جیل میں ہی کراچی کا میئر منتخب ہو کر ذمہ داری کا حلف اٹھایا۔

وسیم اختر ایم کیو ایم کے اہم رہنما تصور کیے جاتے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں متحدہ قومی موومنٹ شدید تقسیم کا شکار ہے، 22 اگست کو ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کراچی میں پریس کلب پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے قائد اور بانی الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کر دیا جبکہ ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم رہنماوں نے کراچی میں موجود قیادت کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کی سربراہی فاروق ستار کر رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم رہنماؤں نے بھی ایک رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو الطاف حسین کی ترجمان رابطہ کمیٹی کہلاتی ہے۔