قیام پاکستان کے بعد قائد محمد علی جناح نے فاطمہ جناح کو مسلم لیگ کی صدر بنانے کی کیوں مخالفت کی تھی؟ جمہوریت کے دعویداروں کے کام کی خبر آگئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 02, 2017 | 09:37 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک)  روزنامہ نوائے وقت کے سینئیر کالم نگار قیوم نظامی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ،مغل بادشاہ دو سو سال تک برصغیر ہندوستان پر حکومت کرتے رہے۔ بادشاہت میں جمہوری معاشرہ پروان نہیں چڑھتا عوام مقتدر نہیں ہوتے۔ غلام قوم مزاحمت پر مائل نہیں ہوتی اور ایک آقا کے بعد دوسرے آقا کو قبول کرلیتی ہے۔ مغلیہ دور کے بعد انگریزوں نے دو سو سال تک ہندوستان کو کالونی بنائے رکھا۔پاکستان کی آزادی کو ستر سال ہونے کو ہیں مگر غلامانہ ذہنیت مزید پختہ ہورہی

ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنے دور میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اور انگریز تاجروں کو ساحلی علاقے کے قریب ’’سورت‘‘ میں فیکٹری لگانے کی اجازت دی۔

 جہانگیر کا برطانوی بادشاہ جیمزاول کے نام 1617ء کا خط دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ ’’آپ کی دوستی اور محبت کا خط ملا۔ مجھے آپ کے سفیر سرتھامس رو (جو آپکے بااعتماد خادم ہونے کے مستحق ہیں) نے آپکی جانب سے تحفے دئیے ہیں جو آپ کی میرے لیے خیر سگالی کا ثبوت ہیں۔ یہ تحفے مجھے خوشگوار لمحات میں ملے جو اس قدر دلکش تھے کہ میری نظر ان تحفوں سے ہٹتی نہیں تھی۔ میں نے ان تحفوں کو بڑی مسرت اور خوشی سے قبول کیا۔ میں نے اپنی ریاستوں اور بندرگاہوں کو احکامات جاری کردئیے ہیں کہ برطانوی تاجروں کا میرے دوست کی رعایا کے طور پر استقبال کیا جائے۔ مجھے اُمید ہے آپ گاہے بگاہے اپنے شاہی خطوط سے نوازتے رہیں گے۔ میں آپکی صحت اور خوشگوار زندگی کا خواہاں ہوں۔ اُمید ہے ہماری باہمی دوستی مستقل ثابت ہوگی‘‘۔(انڈین ہسٹری سورس بک انگلینڈ، انڈیا اینڈ ایسٹ انڈینز 1617اے ڈی)

جہانگیر کے تحفے مغلیہ سلطنت اور مسلمانوں کیلئے بڑے مہنگے ثابت ہوئے۔ انگریزدور میں مسلمان ’’شودر‘‘ بن کر رہ گئے۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن نے درست کہا تھا کہ جب کسی قوم کے حکمران دوسری قوموں کے احسان اُٹھاتے ہوتے ہیں تو قوم کو اسکے بدلے اپنی آزادی اور خودمختاری کو دائو پر لگانا پڑتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق سول سرونٹس امریکی اور برطانوی اہلکاروں سے پانچ دس ڈالروں کی ’’بخششیں‘‘مانگتے تھے۔ پاکستان کے سول و عسکری حکمران سعودی، قطری اور اماراتی بادشاہوں سے سونے کی گھڑیوں، ہیرے جواہرات اور مہنگی کاروں کے تحفے وصول کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹاک شو میں سعودی شاہ سے لندن میں قیمتی فلیٹ تحفہ میں لینے کا اعتراف کیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سیلاب سے متاثرہ بے گھر افراد کی امداد کیلئے دیا گیا مہنگا ہار بھی ہضم کرگئے۔ انہیں یہ ہار وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے دبائو پر حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ پاکستان کا ریاستی نظام انتہائی کمزور اور ناقص ہے اس لیے چھوٹے لوگ بڑے منصب حاصل کرلیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے سعودی اور قطری بادشاہوں سے خاندانی تعلقات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کیلئے بادشاہوں اور شہزادوں کے تحفوں کی تفصیل طویل ہے۔ دوسرے ممالک کے بادشاہوں کے حکمرانوں کیلئے غیر معمولی مہنگے تحفے آنے والی نسلوں کیلئے ایک بار پھر غلامی کا سبب بن سکتے ہیں۔ "Conflict of Interest" یعنی ذاتی اور خاندانی مفاد کے قومی مفاد سے ٹکرائو کا اُصول عالمی طور پر مسلمہ ہے اور جمہوریت کا بنیادی اُصول ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کا بیرسٹر بھانجا پیر بھائی ہندوستان سے پاکستان آیا وہ جوڈیشل آفیسر بننا یا لا پریکٹس کرنا چاہتا تھا مگر قائداعظم نے اسکی حوصلہ افزائی نہ کی اور وہ مایوس ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا۔(ماہنامہ ہیرلڈ دسمبر 2016صفحہ 79) قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے رفقاء کے اس مشورے کو مسترد کردیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو مسلم لیگ کا صدر نامزد کیا جائے کیونکہ یہ رائے جمہوری اُصولوں کے منافی تھی۔آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اپنی بہن اور منہ بولے بھائی کو ’’مختار کل‘‘ بنادیا۔ متحدہ عرب امارات میں بھٹو خاندان کے دیرینہ دوست کو سفیر نامزد کیا گیا تاکہ وہ بھٹو زرداری خاندان کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ قطر میں پاکستان کے کیریئرڈپلومیٹ سفیر حسن رضا کو چھ ماہ بعد ہٹا کر وزیراعظم نے طارق فاطمی کے نوٹ پر اپنے دیرینہ بنکر دوست کے بیٹے اور حسن نواز کے بہترین دوست شہزاد کو سفیر نامزد کیا۔ عینی شاہد نامور اینکر حامد میر کے مطابق سیف الرحمن عرف ’’احتساب الرحمن‘‘ نے راولپنڈی کی احتساب عدالت میں آصف زرداری کے پائوں پر گر کر معافی مانگی۔ وہ طویل عرصے سے قطر میں مقیم ہیں اور قطری شہزادوں کے ساتھ مل کر بزنس کررہے ہیں۔ مبینہ طور پر پانامہ کیس کے سلسلے میں قطری شہزادے کے خطوط ان کی نگرانی میں پاکستان کے سفارت خانے میں تیار ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم اگر پارلیمنٹ کے خطاب میں ’’قطری نوازشات‘‘ کا ذکر کردیتے تو عدلیہ میں انہیں مختلف مؤقف اختیار نہ کرنا پڑتا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ ’’کرپشن کے مسئلہ پر کوئی سنجیدہ نہیں ہے‘‘۔ اس نوعیت کا بیان وہ وفاقی وزیر ہی دے سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہو اور اسکے خمیر میں ملاوٹ نہ ہو۔ چوہدری نثار علی کا شمار ان محترم وزراء میں ہوتا ہے جنہوں نے ’’درباری‘‘ بننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے انتخابی حلقہ میں ورکرز کنونشن سے بے ساختہ خطاب کیا انکی باتیںدلوں میں اُتر رہی تھیں۔ عمران خان کے پرجوش جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد میں شرکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانامہ لیکس کا اثر ہورہا ہے۔کہنے کو آج پاکستان میں جمہوریت ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا موجود ہیں مگر حکومت کو مغل بادشاہوں کی طرح چلایا جارہا ہے۔ آئین میں ترمیم کرکے منتخب پارلیمنٹ کی آواز ہی سلب کرلی گئی ہے۔ اب پارٹی لیڈر پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر پارلیمنٹ کو چلاتے ہیں۔پروفیسر خورشید احمد راوی ہیں کہ میاں نواز شریف نے 1990ء میں بارہویں ترمیم کے لیے جو مسودہ تیار کرایا اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ وزیراعظم کو بوقت ضرورت آئین کے آرٹیکل کو معطل کرنے کا اختیار ہوگا۔ آئی جے آئی کے رہنمائوں خصوصاََ قاضی حسین احمد نے اسکی سخت مخالفت کی۔ میاں صاحب نے 1997ء میں ’’مغل بادشاہ‘‘ بننے کیلئے پندرہویں ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کرائی مگر پی پی پی نے سینٹ میں اس ترمیم کو منظور نہ ہونے دیا۔ حکمرانوں کو عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی وہ عوام کو جواب دہ ہیں۔ آئین اور قوانین کے برعکس ذاتی مرضی اور منشاء کے مطابق کلیدی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ احتساب ایک مذاق بن کررہ گیا ہے۔ عوام تھک ہار کر بے بس اور بے حس ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم شاہراہوں کے جنون میں مبتلا ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ اختلاف یہ ہے کہ تعلیم، صحت، صاف پانی اور افرادی قوت کو ہنر مند بنانے پر بھی توجہ دی جائے تاکہ صحت مند، ہنر مند اور تعلیم یافتہ عوام آنیوالے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں۔ وزیراعظم وزیر خارجہ بھی ہیں مگر انہوں نے خارجہ پالیسی پر کبھی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا۔قطری شہزادے کے دو خطوط سپریم کورٹ میں پیش کیے جاچکے ہیں جبکہ مبینہ طور پر قطر میں تیسرا خط تیار ہورہاہوگا۔ غالب یاد آتے ہیں۔

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں