طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور کثیر زوجگی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں : جمعیت العلماء ہند کی سپریم کورٹ میں وضاحت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 03, 2016 | 16:58 شام

نئی دہلی(مانیٹرنگ) نامور اسلامی تنظیم جمعیت العلمائے ہند نے آج سپریم کورٹ سے کہا کہ شریعت اسلامی میں جس میں طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور کثیر زوجگی کی جڑیں بہت گہری ہیں ، مداخلت نہیں کی جاسکتی ۔ دیگر رسوم و رواج کی بہ نسبت مسلمانوں میں ان تینوں طریقوں کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ اپنے جوابی حلف نامے میں جمعیت نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء میں قطعیت کا ایک عنصر ہے ۔ یہ کوئی مقامی یا علاقائی کارروائی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بنیادی طور پر قرآن م

جید اور سنت پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر مبنی ہے ۔ اس کی وضاحتیں مختلف علمائے دین نے کی ہیں جنہوں نے مکمل تحقیق کے بعد اس کی توثیق کی ہے ۔ آزادی مذہب اور یکسانیت پیدا کرنا اس کے لئے عجیب نظر آنے والے رسوم و رواج کا خاتمہ یکساں سیول کوڈ کا عدالتی کارروائی کے ذریعہ نفاذ دستوری امتناع کے برخلاف ہوگا ۔

 

سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا جواب دیتے ہوئے جمعیت نے کہا کہ بنیادی حقوق کے فرائض جو دستور میں درج کئے گئے ہیں فریقین کے پرسنل لاء کو متاثر نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے نظریات اور جدید دور کے تقاضے عدالتوں میں موضوع نہیں بنائے جاسکتے ۔ ان کا نفاذ قانون وضع کرنے کے ذریعہ ہونا چاہئیے اور پرسنل لا میں ترمیم یا تبدیلی کیلئے رسوم و رواج کو پیش نظر رکھنا یا لوازمات کی تبدیلی پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ جوابی حلف نامہ میں جمعیت نے یہ بھی کہا کہ مسلم پرسنل لاء زیادہ اعلیٰ درجہ پر ہے بہ نسبت رسوم و رواج یا عمل کے کیونکہ پرنسل لا ء میں قطعیت کا ایک عنصر ہے ۔ یہ کوئی مقامی یا علاقائی کارروائی نہیں ہے ۔ مسلم پرسنل لاء قانون 1937ء کا حوالہ دیتے ہوئے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ مسلم خواتین کو مسلم پرسنل لاء کے تحت رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس کے بجائے مقامی رسوم و رواج اور عوامل کو نہیں دی جاسکتی کیونکہ مسلم پرسنل لاء خواتین کو زیادہ وقار عطا کرتا ہے ۔ مسلم تنظیم نے مزید کہا کہ جن خواتین سے اس مسئلہ پر سپریم کورٹ نے رجوع کیا تھا اسے باقاعدہ دیوانی عدالتوں سے ربط پیدا کرنا چاہئیے اور قانون کی روشنی میں طلاق کی اجازت کے نفاذ کے بارے میں ثالثی کرنے کی ہدایت دینی چاہئیے ۔

حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ نکاح حلالہ کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ طلاق قطعی اور ناقابل تنسیخ ہے ۔ سابق شوہر اور بیوی ایک دوسرے کیلئے طلاق کے بعد حرام ہوجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتے تاہم اگر مطلقہ خاتون کسی اور مرد سے شادی کرے اور یہ شادی بھی ناکام ہوجائے تو اسلام صرف ایسی خاتون کو سابق شوہر سے تازہ نکاح کی اجازت دیتا ہے ۔ قبل ازیں کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مرکزی حکومت کے موقف کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہئیے کیونکہ صنفی مساوات اور سیکولرازم کی اقدار کے نام پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جو دستور ہند کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ حکومت نے پہلی بار اس رواج کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور کثیر زوجگی کو صنفی مساوات کے اصولوں کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان تینوں فریقوں سے صنفی مساوات اور عدم تعصب کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ قبل ازیں مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے ایک دستخطی مہم بھی چلائی تھی جس میں حکومت کی یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی مخالفت کی گئی تھی اور مسلم خواتین کی اکثریت نے اس دستخطی مہم میں شرکت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور کثیر زوجگی کی تائید کی تھی اور حکومت سے شریعت اسلامی میں دخل اندازی سے باز آجانے کا مطالبہ کیا تھا ۔