خطرے میں ہے اخروٹوں کی جنت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2017 | 09:56 صبح

 
کرغزستان(مانیٹرنگ رپورٹ) کرغزستان، دنیا بھر میں یہ ملک اخروٹوں کے لئے مشہور ہے. لیکن آج یہاں موجود دنیا کا سب سے بڑا اخروٹوں کا جنگل خطرے میں ہے.
وہاں کے رہنے والے لوگوں کو اپنے علاقے پر فخر ہے. وہ بتاتے ہیں کہ یہ جنگل حیرت انگیز ہے. اصل میں وہ کرغزستان میں واقع دنیا کے سب سے بڑے اخروٹ کے جنگل میں رہتے ہیں. قدیم جنگل اس درمیان بڑھ کر 000 ،30ہیکٹر کے علاقے میں پھیل گیا ہے. ارستانلی تہذیب کے بیچوں بیچ یہ لوگ رہتے ہیں۔
اگلے دن سورج اگنے پر ارستانلی اور ان کے بھائی اکرم ہ

میں پہاڑوں پر لے جاتے ہیں. اخروٹ کے درخت سمندر کے کنارہ سے 2000 میٹر کی بلندی پر اگتے ہیں. آخر میں ہم تیان شان پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہیں. دونوں بھائی فکر مند ہیں. گزشتہ سال اخروٹ کی فصل اچھی نہیں رہی. اس سال حالات کچھ بہتر ہیں، لیکن بہت سارے درختوں کو نقصان پہنچا ہے. ارستانلی باشندے کہتے ہیں، “ہوا نے درختوں کی ٹھیناں توڑ دی ہے . یہ درخت کافی پرانے ہیں. ہمیں نئے درخت چاہئے۔
 درختوں کی کمی اخروٹوں کے جنگلات کی سب سے بڑی پریشانی ہے. ارد گرد کم ہی نوجوان درخت کے پاس نظر آتے ہیں. یہاں کے رہنے والے نسلوں سے اخروٹ کی کاشت کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے کھیتوں کو لیز پر لیتے ہیں. لیکن وہ اپنے مویشیوں کو بھی جنگلوں میں چرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں. مویشی چھوٹے چھوٹے پودوں کو کھا جاتے ہیں جو بعد میں اخروٹ پیدا کر سکتے ہیں . اخروٹ کے درختوں کو بڑا ہونے اور پھل دینے میں 30 سال لگتے ہیں۔ ارستانلی لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے یہاں اخروٹ کے گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔
لیکن جنگلوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی بھی ہوئی ہے، تاہم اس پر روک بھی لگی ہے. لیکن روک کی نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔اخروٹ کے پھل درختوں سے نوجوان توڑتے ہیں. وہ درخت پر چڑھ جاتے ہیں اور ٹہنیوں کو تب تک نہیں چھوڑتے ہیں جب تک پھل نیچے نہ گرے۔ یہ کام خطرناک ہے لیکن ہے بہت اثر دار. پھل گرنے کے بعد سارا خاندان اخروٹوں کو بٹورنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔
اخروٹ کی پیداوار بڑھانے کے لئے اس علاقے میں نئے درخت لگانا ضروری ہے۔کرگستان کے ماحولیات بین الاقوامی اداروں کی مدد سے صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہیں. چھوٹے پودوں کو مویشیوں سے بچانے کے لئے باڑ لگائی جا رہی ہے. پروجیکٹ کے تحت کسانوں کو باڑ لگانے میں مدد دی جا رہی ہے. مقامی کسان انکے اپنے خرچ خود نہیں اٹھا سکتے. روایتی طور پر بجارے کسانوں کو اس کے بارے میں کچھ پتہ بھی نہیں ہے.
جاکرکھوچا سارمساکوو کرغزستان میں جیوویودتا کے ایکسپرٹ ہیں. وہ اس پروجیکٹ کی حمایت کر رہے ہیں. وہ جانتے ہیں کہ یہ کام راتوں رات نہیں ہو گا، “ہم جنگل کا استعمال کرنے والے مقامی باشندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. لوگ جنگل کی حفاظت کرنا اور مستقبل کے بارے میں سوچنا سیکھ رہے ہیں. اس لئے ہم اسکولوں میں جاکر ماحول کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہم مسجدوں میں بھی جاتے ہیں تاکہ لوگوں کا رویہ بدلے۔
اس کے علاوہ ماحولیاتی کارکن گاو¿ں کے لوگوں کے لئے خشک محفوظ اور جنگلی جڑی بوٹیوں کی طرح متبادل کمائی کے ذرائع کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ارستانلی نے اس ڈرائر کی مدد سے گزشتہ سال نٹ کی کاشت میں ہوئے نقصان کی بھرپائی ہے. جنگل کے بغیر یہاں کوئی اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے میں ہر کسی کو جنگل کی حفاظت کرنی ہی ہوگی۔