نیب کے 4 ڈی جیز کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 29, 2017 | 11:39 صبح

اسلام آباد  ۔ (مانیٹرنگ)سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے 4 سینئر افسران کی کی تقرری کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کو عہدوں سے فوری ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ جن افسران کو عہدوں سے ہٹانے کا حکم ہوا ہے ان میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب کوئٹہ، ڈی جی نیب لاہور اور ڈی جی نیب کراچی سمیت ڈی جی آگاہی عالیہ رشید شامل ہیں۔ عدالت نے چاروں افسران کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے بعد خالی ہونے والی آسامیوں پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ذریعے تعیناتی کا حکم بھی دیا ہے۔ ڈی نوٹیفائی ہونے والے دی

گر تین ڈی جیز میں میجر طارق ۔ میجر برہان اور میجر شبیر شامل ہیں، جبکہ ڈائریکٹر جنرل نیب عثمان مجید کو ملازمت کے لیے اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ عہدے سے برطرف کیے جانے والے تمام ڈائریکٹر جنرلز کو مراعات مل سکیں گی۔ عدالت نے 200 سے زائد افسران کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم بھی دیا ہے۔

 جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب میں غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد ڈی جی نیب لاہور میجر برہان علی، ڈی جی بلوچستان طارق محمود اور ڈی جی نیب کراچی میجر منیر احمد اور ڈی جی نیب آگاہی عالیہ رشید کو فوری طور پر ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالتی حکم میں قرار دیا گیا ہے کہ نیب خالی پوسٹوں پر تین ماہ میں دوبارہ بھرتیاں کرے، میجر برہان، میجر طارق اور میجر شبیر کو ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد دیئے جائیں جب کہ ڈی نوٹیفائی ہونے والے افسران ضرورت کے تحت کنٹریکٹ پر رکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ ڈائریکٹر جنرل نیب عثمان مجید کو ملازمت کے لیے اہل قرار دے دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے نیب کے چار افسران فہد خان، یاسر محمود، کریم بخش اور ہرمون بھٹی کو 4 ہفتوں میں ایچ ای سی سے منظور شدہ تعلیمی اداروں کے سرٹیفکیٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ افسران کی کمیٹی ان چاروں افراد کو شوکاز نوٹس جاری کرے گی اور مقررہ مدت میں سرٹیفکیٹ پیش نہ کرنے والے افسروں کو فارغ کرے گی۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں 200 سے زائد دیگر نیب افسران سے متعلق فیصلے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم بھی دے دیا ۔ کمیٹی میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، ڈی جی ایچ آر نیب اور ایف پی ایس سی کا نمائندہ شامل ہوگا۔ کمیٹی دو ماہ میں نیب افسران سے متعلق جانچ پڑتال مکمل کرنے کی پابند ہوگی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ کمیٹی ملازمین کو شوکاز نوٹس جاری کرکے ان کا موقف سنے جبکہ دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔ سیکریٹری نیب کا عدالت کو بتانا تھا کہ نیب کے 137 ملازمین میں سے 35 ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نےمزید کہا کہ یہاں ہر ایماندار کو بے ایمان بنا دیا جاتا ہے، ہم اپنے فریم ورک میں رہتے ہوئے حکم دے رہے ہیں تاکہ نظام بہتر کام کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے، قانون و ضوابط کے مطابق تعیناتیوں سے ہی ادارے کا ڈھانچہ درست ہوسکے گا جبکہ آئندہ عدالت میں کوئی نیب کا اہلکار آکر یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرآپ لوگ کام کرتے تو معاملہ ہمارے پاس نہ آتا۔واضح رہے کہ ایک روز قبل جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب چیئرمین کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ غیر قانونی طور پر مقرر کیے گئے افسران کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیش کریں، تاکہ وہ پینشن و دیگر مراعات حاصل کرسکیں۔ نیب چیئرمین قمر زمان چوہدری نے منگل (28 مارچ) کے روز سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ غیر قانونی تقرریوں کے کیس کا سامنا کرنے والے 9 نیب افسران میں سے تین افسران نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے انتخاب کو رد کرتے ہوئے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہےجبکہ ڈی جی آگاہی عالیہ رشید بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لیے راضی نہیں۔نیب میں غیرقانونی تقرریوں کا معاملہ سب سے پہلے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور میں سامنے آیا تھا کہ جب ایک گمنام خط کے ذریعے چیف جسٹس کی ان تعیناتیوں کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی تھی جن میں 16 سابق فوجی افسران کی ڈیپوٹیشن پر گریڈ 20 اور 21 میں تقرری شامل تھی جبکہ مجموعی طور پر 32 افسران اعلی ترین عہدوں پر خدمات انجام دے رہے تھے۔خط میں نیب پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ نیب نے نہ صرف بنیادی سروس اسٹرکچر اور سروس قوانین اسکیم کی خلاف ورزی کی بلکہ خلاف ضابطہ تقرری کرکے سپریم کے فیصلے کی حکم عدولی بھی کی ہے۔واضح رہے کہ ابنے عہدے سے ہٹائی گئی نیب کی انسداد کرپشن کی تشہیری مہم کی سربراہ عالیہ رشید پہلے محکمہ تعلیم میں کنٹریکٹ ملازم تھیں، سپریم کورٹ کے روبرو نیب نے اپنے تحریری جواب میں خود اعتراف کیا تھا کہ ادارے میں سیکڑوں لوگوں کی قواعد کے خلاف بھرتیاں ترقیاں اور تعیناتیاں ہوئی ہیں۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے عالیہ رشید کو نیب میں ڈائریکٹر آگاہی مہم تعینات کرنے پر شدید برہمی کا اظہارکیا تھا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ شعوربیداری الگ اورٹینس کھیلنا الگ چیز ہے، کھیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی عالیہ رشید کو نیب میں ڈائریکٹر کیوں لگایا گیا۔