انصاف لازوال

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 21, 2016 | 01:39 صبح

ریاض(مانیٹرنگ) انصاف وہ جو سب کو ہوتا ہوا نظر آئے۔دور جدید ہو یا قدیم، بیشتر ممالک شاہی یا حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے چشم وچراغ سنگین جرائم پر سزاؤں سے بچتے چلے آرہے ہیں۔معمولی غلطیوں یا نا انصافیوں کا تو کہنا ہی کیا۔ سعودی عرب میں بھی بادشاہت ہے اور شاہی خاندان کے کسی فرد کے ظلم کے خلاف لوگ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ملزم کا تعلق کسی بھی خاندان سے ہو،سب سے ایک سا سلوک ہوتا ہے۔

اس کی حالیہ منفرد مثال منگل کے روز ایک سعودی شہزادے ترکی الکبیر کا قصاص میں سر قلم کیا جانا ہے۔و

ہ شاہی خاندان کا دوسرا فرد ہے جس کا قصاص میں سر قلم کیا گیا ہے۔قبل ازیں ستر کے عشرے میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو شہید کرنے والے ان کے سگے بھتیجے کو تہ تیغ کیا گیا تھا۔

شاہی خاندان کے فرد ترکی الکبیر کا ایک نوجوان کے قتل کے جرم میں سرقلم کیے جانے پر سعودی عرب کی بعض نمایاں شخصیات اور عام شہریوں نے مرکزی اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس کو مملکت میں قانون کی حکمرانی کی زندہ مثال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔

سعودی لکھاری اور وکیل عبدالرحمان اللحم نے ٹویٹ کیا ہے:''ایک شہری کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کے ساتھ شاہی خاندان کے برابر ہی سلوک کیا جارہا ہے۔کوئی بھی دوسرے سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہے''۔

شاہی خاندان کے رکن شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:''شاہ نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ قانون کی نظر میں شہزادوں اور دوسرے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور میرے خیال میں قاتل شہزادے کے خلاف سزا کا نفاذ اس حقیقت کا سب سے واضح اظہار ہے''۔

شہزادہ ترکی کے ایک قریبی عزیز نے بھی ٹویٹر پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''یہ ادلے کا بدلہ ہے۔اس نے جو جرم کیا تھا ،اس کو وہی سزا ملی ہے اور اس کو قصاص میں قتل کیا گیا ہے''۔

ٹویٹر پر صارفین خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ایک ویڈیو کی بھی تشہیر کررہے ہیں۔اس میں انھیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ''کوئی بھی شخص ان کے خلاف ،ولی عہد یا شاہی خاندان کے کسی دوسرے فرد کے خلاف قانونی درخواست دائر کرسکتا ہے''۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے سزا کے نفاذ کے بعد اپنے ابتدائی بیان میں یہ اطلاع دی تھی ایک شہری ترکی الکبیر کا سرقلم کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے شاہی خاندان سے تعلق کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔بعد میں سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ ترکی الکبیر شاہی خاندان کا فرد تھا۔

انصاف کا کیسے نفاذ ہوا؟

شریعت کے تحت مجرم کا خاندان مقتول کے خاندان کو خون بہا میں رقم کی پیش کش کر سکتا ہے اور اس صورت میں قصاص میں قتل کی سزا موقوف ہوسکتی ہے۔اس قتل کیس میں بھی سعودی اور شرعی قانون کی پاسداری کی گئی ہے۔

سعودی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق شہزادہ تركی بن سعود بن تركی بن سعود الكبيرنے دارالحکومت الریاض کے نواح میں واقعے علاقے الثمامہ میں ایک گروہی لڑائی جھگڑے کے دوران سعودی شہری عادل بن سلیمان بن عبدالکریم المحيميد کو قتل کردیا تھا۔

حکام نے اس شہزادے کو گرفتار کر لیا تھا اور واقعے کی تفتیش کے بعد اس کے خلاف نوجوان کے قتل کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔سعودی عرب کی ایک عمومی عدالت نے تین سال قبل شہزادہ ترکی کو قتل کے جرم میں قصوروار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔

اپیل عدالت اور عدالت عظمیٰ دونوں نے اس سزا کو برقرار رکھا تھا ۔اس کے بعد اس سزا پر عمل درآمد کے لیے ایک شاہی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔اس کے تحت ہی سعودی شہزادے کا منگل کے روز الصفہ مسجد کے مرکزی چوک میں سرقلم کیا گیا تھا۔اس مسجد کے پیش امام اور مبلغ محمد المصلوخی نے بتایا ہے کہ مقتول عادل محیمید کے خاندان کو دیت میں لاکھوں ریال رقم کی پیش کش کی گئی تھی لیکن اس نے انکار کردیا تھا۔

انھوں نے مزید بتایا ہے کہ ''عادل محیمید کے والد کے ہاتھ پر یہ لاکھوں ریال رکھے گئے تھے اور انھیں قاتل کو معاف کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ رقم لینے سے انکار کردیا اور اللہ کے حکام یعنی قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا''۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مقتول کے خاندان پر شاہی خاندان یا حکام کی جانب سے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا ہے۔