ایسے افراد کی کہانی جو خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 25, 2016 | 17:13 شام

کابل(مانیٹرنگ ڈیسک):افغانستان کے شہر کابل میں گھومنے پھرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں ریستورانوں اور ہوٹلوں کو اکثر شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، اور ان میں سے کئی ہوٹلوں اور ریستورانوں کے باہر بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

کابل کے حالیہ دورے کے دوران ایک شام مجھے ایک دوست اور ساتھی صحافی باہر لے گئے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’ہم آپ کو بہتر ریستوران لے جانا چاہتے ہیں جہاں کا کھانا بھی لذیذ ہے لیکن وہاں کے داخلی راستے پر سکیورٹی بہت سخت

ہے نہ تو میں وہاں اچھا محسوس کرتا ہوں اور میرے خیال میں آپ بھی وہاں بہتر محسوس نہیں کریں گے۔‘ان کے ان الفاظ نے مجھے تجسس میں ڈال دیا۔ ایسے کون سے ریستوران ہو سکتے ہیں جہاں کابلی اور غیر ملکی پر اطمینان محسوس کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ بہتر اور پر سکون وقت گزار سکیں جب کہ آپ اپنے تحفظ کے لیے ہر وقت پریشان رہتے ہوں؟ایک شام ہم نے آزاد خیال خواتین اور حضرات کے لیے مشہور ایک کیفے کا دورہ کیا۔دیگر روایتی جگہوں کی طرح یہاں مرد اور خواتین الگ الگ نہیں بیٹھے تھے اور یہاں سکیورٹی کا بھی کوئی نام نشان نہیں تھا جبکہ کابل میں ہر جگہ دھماکہ خیز مواد سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی دیواریں بھی نہیں تھیں۔اس کیفے میں مجھے انتہائی دوستانہ ماحول دکھائی دیا جہاں گاہک افغان، عرب اور امریکی پکوان سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان پکوانوں میں زیادہ تعداد فاسٹ فوڈ اور قہوہ نظر آرہا تھا۔ہم سینڈوچ کھا رہے تھے کہ اتنے میں کیفے کے مالک اور ایک مسلح شخص کے درمیان بحث نے اس جگہ کے پر سکون ماحول کو اچانک تبدیل کر دیا۔وہاں موجود تمام افراد کی نگاہیں دروازے کے قریب ہونے والے اس مباحثے پر جم گئیں۔ کیفے کا مالک اس مسلح شخص سے گن گاڑی میں رکھنے کو کہہ رہا تھا جبکہ وہ شخص اس بات کو ماننے سے انکار کر رہا تھا۔تقریباً دس منٹ تک جاری رہنے والی اس تکرار کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اس شخص نے اپنی گن کی میگزین گاڑی میں رکھ دی اور گن ساتھ لے آیا۔میرے تجسس میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب رات کے وقت 20 سال کی عمر کی تین لڑکیاں وہاں داخل ہوئیں۔یہ تینوں خواتین ہلکے سیاہ اور نیلے رنگ کی چادروں سے اپنے سروں کو ڈھانپے ہوئے تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی سکیورٹی کو لے کر پریشان دکھائی نہیں دے رہی تھی۔میں نے جب ان سے بات کی اور اپنے بارے میں بتایا تو مجھے معلوم ہوا کے یہ تینوں لڑکیاں یونیورسٹی کی طالبات ہیں اور بات کرنے کو تیار ہیں۔

ان سے میں نے سوال کیا کہ کیا وہ رات کے اس وقت بنا کسی مرد رشتہ دار کے اس کیفے میں خوفزدہ ہیں؟

ان میں سے ایک لڑکی نے کہا: ’آج ہم افغان مردوں کی عورتوں کے بارے میں قدیم سوچ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔‘

’ہم ان جگہوں پر جاتی ہیں جہاں خواتین کا کم ہی آنا جانا ہوتا ہے، ان جگہوں میں وہ پارک بھی شامل ہے جہاں عام طور پر مردوں کا رش ہوتا ہے۔‘

ایسے میں بہت سے افراد ہمارے گرد جمع ہو گئے اور عجیب نظروں سے ہمیں دیکھنا شروع کر دیا لیکن ہم نے انھیں توجہ نہیں دی۔

’ہم یہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ ہمیں بھی ویسے ہی اپنا وقت گزارنے کا حق حاصل ہے جیسا کہ نوجوان لڑکوں کو ہے۔‘

میں نے ان سے پوچھا کہ وہ افغانستان کے معتدل معاشرے میں کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں؟

جواب میں انھوں نے کہا: ہم ایسے مرد نہیں چاہتے جو اس کیفے کی طرح ہمیں تجسس بھری نگاہوں سے دیکھیں۔ کسی بھی مرد کو ہمارے یہاں آنے سے پریشان ہونے یا سوال کرنے میں دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔‘

ایک اور دن میں نے ایک ایسے ریستوران کا دورہ کیا جسے غیر ملکی چلا رہے ہیں۔وہاں گلی کے گرد دھماکہ خیز مواد سے بچاؤ کے لیے دیوار بنائی گئی تھی اور اندر داخل ہونے کے لیے دروازے پر موجود مسلح محافظوں کے درمیان سخت سکیورٹی چیک سے آپ کو گزرنا پڑتا تھا۔اس ریستوران اور کسی وزارت کے دفتر یا بین الاقوامی تنظیم کے باہر موجود سکیورٹی میں کوئی فرق نہیں تھا۔وہاں کی نیچی چھتوں سے دم گھٹ رہا تھا لیکن میرے ساتھی نے مجھے یقین دلایا کہ ’یہ کابل کی بہترین جگہوں میں سے ایک ہے جہاں آپ سب کچھ بھول کر بہتر وقت گزار سکتے ہیں‘۔تمام تر ویٹر غیر ملکی تھے جو مغربی کھانا پیش کر رہے تھے۔

خاتون ویٹر نے پوچھا: ’آپ کیا لینا پسند کریں گے؟ ہمارے پاس جوس، بیئر، وائن اور وہسکی ہے۔‘

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں تو مینیو میں موجود نہیں ہیں جس پر ویٹریس بنا کچھ کہے صرف مسکرائی۔

اس ریستوران میں آنے والے افراد میں زیادہ تعداد امیر افغانیوں کی تھی، جو یا تو دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہیں یا غیرملکیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ میں نے وہاں موجود افراد کی باتیں سننے کی کوشش کی تو مجھے فارسی اور انگریزی زبان سنائی دی۔میرے دوست نے مجھے بتایا کہ ’یہاں زیادہ تر صارفین مقامی طاقتور لوگ ہیں جو لوگوں کی نظر سے بچ کر یہاں ڈرنک کرنے آتے ہیں۔‘اس رات میں نے وہاں کسی ایک غیر ملکی گاہک کو نہیں دیکھا۔

ایک اور شام میری ملاقات ایک گہری رنگت والی سیاہ بالوں کو باندھے پرہجوم مقام پر کھڑی ایک نوجوان غیر ملکی خاتون سے ہوئی۔انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میرا تعلق زمبابوے سے ہے۔ مجھ کابل آئے چھ ماہ ہو چکے ہیں۔‘جبکہ میں اس خاتون کے برطانوی یا امریکی ہونے کا قیاس کر رہا تھا۔انھوں نے مجھے کہا کہ ’یہی تو مسئلہ ہے میں باہر نہیں جا سکتی اس ڈر سے کہ کہیں مجھے اغوا نہ کر لیا جائے۔ جو لوگ مغربی افراد کا پیچھے کرتے ہیں وہ مجھے برطانوی یا امریکی سمجھ لیتے ہیں صرف میری جلد دیکھ کر، وہ یہ نہیں جانتے کہ میں ایک غریب ملک سے تعلق رکھتی ہوں۔‘

یاد رہے کہ جنوری 2014 میں طالبان نے ایک لبنانی ریستوران پر حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ دو دن بعد ہی ایک فائیو سٹال ہوٹل سرینا پر مسلح افراد کے حملے میں چار غیر ملکیوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔