کراچی : خوشحال گھرانوں کی خواتین کے داعش کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کا انکشاف ، سینئیر خاتون صحافی نے پردہ اٹھا دیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 19, 2017 | 10:26 صبح

لاہور (مانیٹرنگ رپورٹ) روزنامہ نوائے وقت کی خاتون کالم نگار طیبہ ضیاءچیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔دہشت گردی کی جب لہر شروع ہوتی ہے تو بلا تمیز مزار، بازار، مساجد، پارک، درسگاہیں، لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جہاں ہجوم ملا دھماکہ کر دیا اور و اصل جہنم ہو گئے۔ داعش اسرائیل کی زر خرید لونڈی ہے۔ خلافت کا پرچار کرنے والے اور والیاں اب پاکستان کے میڈیا اور مذہبی اداروں تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ سازشی پروپیگنڈہ مبلغ خواتین کی صورت میں گھر وں تک پہنچ چکا ہے۔

داعش بھی خلافت کی اڑ میں دشمنان ا

سلام کے ایجنڈے کا پرچار کر رہی ہے۔ کم عمر لونڈوں اور خواتین کو برین واش کر کے پاکستان کبھی ترکی اور کبھی ایران عراق وغیرہ میں مسلمانوں کو زندہ جھلسا دیا جاتا ہے۔ اپنے گھر والوں کو تبلیغ کے نام پر اس گھناو¿نی سازش سے بچانے کی کوشش کریں۔ مردوں کو اپنی خواتین سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے کہ وہ کس قسم کے وعظ اور تبلیغ کے لئے گھروں سے نکلتی ہیں۔ حجاب اور قرآن کی تعلیم کے پس پردہ تعلیمات کا جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عقائد تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ شرک و بدعت کا شعور بیدار کرنے کے پیچھے معاملہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ ہوش سے کام لیا جائے۔ پیران و مرشد حضرت صاحبان وغیرہ کے پاس جانے والی عورتوں کے مرد بھی ہوش کریں۔ دیکھیں ان کی بیبیاں کہاں اور کس لئے ان بابوں کے پاس جاتی ہیں ؟ عورتوں کو گھر گھر منشیات پھیلانے کے لئے ہی نہیں بلکہ دین کے نام پر برین واشنگ کا دھندا کرنے پر بھی لگا دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح ہر اچھی چیز اچھی نہیں ہوتی، برائی بعض اوقات اچھائی میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے۔ خواتین جہاد اور خلافت کے درس دے رہی ہیں اور گھریلو خواتین کو برین واش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی اس مشن کا حصہ بنیں، خلافت کی تبلیغ دی جاتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں ایک دوسرے پر چیک رکھیں۔ اپنے گھروں میں دین کے نام پر دھیرے دھیرے ملوث کئے جانے کی نبض کو محسوس کریں۔ گزشتہ دنوں کراچی پولیس نے بتایا کہ وہ خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین کے ایک نیٹ ورک کو جلد ہی بے نقاب کر دے گی، جو انتہا پسند گروپ داعش کے لئے فنڈ ریزنگ کا کام کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ مئی میں سانحہ صفورا یعنی شیعہ اسماعیلیوں پر کئے گئے حملے میں چوالیس افراد مارے گئے تھے۔ پاکستان میں یہ ایسا پہلا حملہ تھا، جس کے لئے ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ مشتبہ شخص نے بتایا کہ اس کی اہلیہ نے ’الذکر اکیڈمی‘ نامی ایک مذہبی ادارہ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا نہ تو کوئی دفتر تھا اور نہ ہی کوئی باقاعدہ نظام۔ اس گروہ میں بیس خواتین شامل تھیں جو تمام خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ خواتین بطور ایک نیٹ ورک، ’یو ایس بی‘ کے ذریعے داعش کی ویڈیوز، جہادی لٹریچر اور دیگر مواد کی تشہیر کرتی رہی ہیں۔ یہ خواتین اس گروہ کے اندر شادیوں کا کام بھی سرانجام دیتی رہی ہیں۔ یہ خواتین انتہائی منظم انداز میں درس و تدریس کی آڑ میں خواتین کی ذہن سازی کرتی رہی تھیں۔صوبہ سندھ میں انسداد دہشت گردی ادارے کے سربراہ کے مطابق یہ خواتین انتہا پسندوں کے لئے اسلام کے نام پر چندہ اکٹھا کرتیں اور بعد ازاں ان رقوم کو ملزم کو پہنچا دیتی تھیں۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ سہولت کاروں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ اس بات کو تقویت اس طرح بھی ملتی ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر چار حملہ کرنے والوں کو مدد دینے والے آٹھ سہولت کاروں میں سے چار سہولت کاروں کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تین کی تلاش جاری ہے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔