شامِ غلامی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 15, 2020 | 17:30 شام

انسانوں کے جبرو ستم سے احساسات و جذبات کچل کر محکوم بنالیا جائے تو ایسی غلامی کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔ زنجیریں توڑنے کا ذوقِ یقیں ہو تو ایک نہ ایک دن شام ِغلامی ختم ہو کر صبح آزادی کا آفتاب ضرور طلوع ہوتا ہے۔ بعض قومیں آزادی کی صدیوں جدوجہد کرتی ہیں۔ خوش قسمتی سے برصغیر میں مسلمانوں نے  غلامی کی ایک صدی ہونے سے بھی قبل آزادی کی منزل کو پا لیا اگر انگریز سے آزادی صرف مسلمانوں ہی کا مطمح نظر ہوتا تو شاید غلامی کا اتنا ع

رصہ بھی برداشت نہ کرنا پڑتا۔ اتنی تاخیر ہوئی تو آزادی کی جدوجہد میں ہندوئوں کا شامل ہونا ایک سبب تھا بلکہ انگریز کیلئے اس صورت میں مسلمانوں کو غلام بنانا ہی ممکن نہ ہوتا اگر خطے میں صرف مسلمان ہی ہوتے۔  متعصب ہندوئوں کی سوچ میں مسلمانوں کیلئے کھوٹ، دل میں کدورت اور دماغ میں خناس ہمیشہ سے رہا تھااور ہے۔ ان کے تن من میں مسلمانوں کیخلاف برصغیر میں ہندو اکثریت پر ہزار سال کی حکمرانی کی آگ دہکتی رہتی تھی۔ انگریزوں کے برصغیر پر قبضے میں مہاشوں کی بدنیتی کا گہرا عمل دخل تھا مگر انگریز کی غلامی سے نجات کیلئے ہندوئوں نے نیک نیتی سے کوشش کی حالانکہ آدابِ غلامی کی خوگر ہندو اکثریت کیلئے کیا فرق تھا، مسلمان آقاہوں، انگریز، ولندیزی یا کوئی بھی۔ مگر ان کے اندر کے کینے اور نفرت نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کے انتقام کی ٹھانی ہوئی تھی۔ انگریز سے  نجات حاصل کرنے سے زیادہ ان کے سر پر مسلمانوں کو غلام بنا کر غلامی کا  بدلہ لینے کی دُھن اور بھوت سوار تھا۔انگریز جاتے تواقتدار  ہندو اکثریت کو منتقل ہونا تھا اور  پھر وہی ہوتا جو متعصب اور منتقم اکثریت کی بے پایاں خواہش تھی جس کا مسلم قائدین کو ادراک محض انگریز کو جنگ عظیم  دوم میں زوال کی پستی میں گرتی معیشت  دیکھ کر ہی نہیں ہواتھابلکہ مسلمانوں کے الگ وطن کی بنیاد علامہ اقبال کا 1930ء  کا خطبہ الہ آباد بن چکا تھا۔ قائداعظم اس نکتہ نظر کے سرخیل بن کے سامنے آئے اور شاید قوموں کی آزادی کی زندگی میں ’’اپنے بل بوتے‘‘ پر اتنے مختصر عرصے میں آزادی حاصل کرنے اور الگ وطن کے قیام کی ایسی پہلی نادر مثال ہے،1940 میں قراداد پاکستان منظور ہوئی اور سات سال میں  پاکستان منصۂ شہود پر آگیا۔ اپنے بل بوتے پر اس لئے کہ آزاد تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان بھی ہوئے ہیں مگراپنے بل بوتے پر نہیں اس میں  اقوام متحدہ اور مہذب و متمدن اور ترقی یافتہ ممالک  زیادہ سرگرم رہے۔ جن کے سر سے ان دو مسیحی ریاستوں کی آزادی سے شاید بڑابوجھ اُتر گیا ہو مگر ان کے ضمیر پر وہ بھاری پتھر پون صدی سے موجود ہے جس کے نیچے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی سسکیاں آہ و بکا، مظلومیت اور بے بسی دب کے رہ جاتی ہے۔ بات عمومی رویوں اور اجتماعی سوچ کی ہوتی ہے۔ کالی بھیڑیں بھی مل جائیں گی تاہم مسلمان فطرتاً آزادی پسند اور غلامی بیزار وغلامی گریز قوم  واقع ہوئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیر اور فلسطین میں آزادی کی خاطر انگنت سپوتوں کا جان قربان کر دینا ہے۔ اس عظیم مقصد میں خواتین اور بچے بھی کچھ کم کردار ادا نہیں کر رہے۔اس کے برعکس بنیئے کی طرح سر جھکا کر غلامی قبول کرنے کی مسلمان کے دل میں سوچ کا دور دور تک شائبہ تک نہیں ہوتا۔

 اگست  آزادی کا مہینہ اور قوم جشن مناتی  ہے ۔ہر قوم کی طرح پاکستانیوں کو بھی اپنا پیارا قومی پرچم لہرانے،خوشی سے جھوم جھوم جانے اور بل کھانے کا حق ہے۔ مگر یہ آزادی ابھی مکمل نہیں ہوئی، یہ ادھوری آزادی اور اپنی تکمیل کی متقاضی بھی  ہے۔ ہماری قیادتوں سے پاکستان نہ سنبھل سکا، وہ دولخت ہو گیا۔ یہ سب یکلخت ہوا یا سازشیں پنپ رہی تھیں۔ بہرحال بنگلہ دیش بن گیا۔ سقوط مشرقی پاکستان ایک بھیانک سانحہ تھامگر کسی قدر  اطمینان کا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ آزادملک ہے اور اکھنڈبھارت کی پرچھائیوں سے محفوظ رہا۔ نظریہ پاکستان ڈوبانہیںاپنی آب و تاب اور چمک دمک بدستور برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہماری آزادی کی تکمیل نہ صرف کشمیر کے آزاد ہونے سے بلکہ جوناگڑھ ، مناوادر اور سرکریک کے پاکستان کا حصہ بننے سے ہو گی۔ عمران خان کی حکومت نے بجاطور پر ان علاقوں کوپاکستان کے نقشے میں حصہ دکھا کر ایک تو دنیا پر بھارت کی جارحیت واضح کی دوسرے نئی نسل کے ذہن میں اس نقشے پر نظر پڑتے ہی  مقبوضہ علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے کی تڑپ  ماند نہیں پڑے گی۔

ذرا کشمیریوں کی حالت زار پر غور کیجئے ان کی زندگی کس المیے سے دوچار ہے۔ان کی شامِ غلامی کا خاتمہ  اورصبحِ آزادی کتنی دورہے ۔ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں لیکن اخلاقی اور سفارتی طور پر،باقی اللہ بہتر کرے گا کہہ کر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ توکل  پر ہمارا ایمان اور توکل کے ساتھ تدبیرو تدبرپر بھی یقین محکم ہے۔

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

 پھر اس کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

ہمیں کشمیریوں کو اپنے "بل بوتے" پر آزادی دلانے کا چارہ کرنا ہوگا۔ اس کی ضرورت نہیں کہ فلاں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ کیا قائداعظم نے جب جنرل گریسی کو کشمیر پر لشکر کشی کاحکم دیا تھا‘  کسی ملک  یا بڑی تنظیم سے مدد کی امید وابستہ کی تھی۔آج سعودی عرب کے بارے میں ایک طرف اشتعال انگیز دوسری طرف سیاسی مقاصد کے لئے چاپلوسانہ بیان بازی کی جارہی ہے۔ پاکستان اور ہر ملک کی طرح سعودی عرب خود مختار ملک اور اپنے مفاد کے تعین میں کسی کی مرضی و منشا کا مکلف نہیں۔دراصل معاملات عموماً بے جا توقعات وابستہ کرنے سے گڈ مڈ ہوتے ہیں۔خانگی  مسائل بھی بے جا توقعات سے جنم لیتے ہیں۔ہزار روپیہ سلامی ڈالنے والے ڈیڑھ گنا یا ڈبل کی توقع رکھتے ہیں پوری نہ ہونے پر لڑائی۔۔۔اصولی طور پر کسی  سے مالی تعاون کیا یا دفاعی ،بدلے میں کوئی توقع نہ رکھی جائے تو تعلقات  خراب ہونا تو کجا‘ کبھی دراڑ بھی نہیں پڑ سکتی۔سرزمین حجاز ہماری آرزوئوں اور تمنائوں کا مرکز ہے۔اس کا دلوں میں  سدرۃ المنتہیٰ جتنا بلند وبالا مرتبہ ہے۔جن کو اس مقدس دھتی سے پُرخاش ہے انکے تحفظات بھی دور ہونے چاہئیں۔