کشمیر میں شیعوں کی حکومت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 13, 2017 | 18:36 شام

          کشمیر میں اگر چہ شیعہ حکومت کے بانی '' غازی خان چک''  ہیں ۔لیکن اگر صحیح تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو حکومت کے اصلی بانی اور موسِس ''کاجی چک ''ہیں ۔گرچہ وہ اپنے زمانے میں صرف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان رہے لیکن شیعوں کی حکومت کے آثار اسی زمانے سے پیدا ہوگئے تھے ۔

          چک حکمران اگر چہ عقیدہ کے لحاظ سے شیعہ تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی مذہب کو

سیاست میں داخل نہیں ہونے دیا۔ سلاطین چک کی رواداری اور رعایا پروری کی بنیاد پر ہی مورخوں نے انھیں عادل اور انصاف پرور کہا ہے ۔ان کی مذہبی رواداری کی نظیر اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے عہد میں شیعہ و سنی کا کوئی فساد نہیں ہوا ۔علی شاہ چک کے بارے میں تاریخی کتابوں میں آیا ہے کہ سریر مملکت پر بیٹھنے کے ساتھ ہی انہوں نے کشمیر کی جامع مسجد میں ہر خاص و عام، صغیر و کبیر ، زن و مرد کے سامنے یہ اعلان کیا کہ میں ایک ''محب وطن بادشاہ '' کی حیثیت سے حکومت کروں گا اور کوئی مذہبی عناصرمیرے حکومتی فرائض میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔یہ واضح رہے کہ اس زمانہ میں جامع مسجد سری نگر میں شیعہ و سنی ملکرنمازجماعت قائم کرتے تھے۔متولی امام کے بارے میں کبھی تضاد نہ ہوتا تھا۔کشمیر میں سارے مذہبی فتنے مغلوں کے اقتدار کے بعدکھڑا ہوئے ہیں۔

          چک حکمران بڑے وطن دوست تھے یہ چک حکمران ہی تھے جنہوں نے اپنی بے مثالی شجاعت سے کشمیر کو کئی بار مغلوں کے حملوں سے بچایا تھا ۔یہ دربارتہذیب و ثقافت ،علم و ادب کو دوست رکھنے کی وجہ سے عالموں، فاضلوں ، شاعروں اور ہنر مندوں کی پناہ گاہ واقع ہوا ان کا ادبی ذوق شہرہ آفاق تھا جس کی وجہ سے دور دراز ممالک سے شعرا ء اور ادباء ان کے دربار میں شرف یاب ہوتے تھے۔ چک حکمران نے علما، ادباء ا ور شعرا کے لئے حکومت سے وظیفے مقرر کئے تھے ان میں بعض ( حسین چک اور یوسف چک ) خود بھی شاعرانہ مزاج رکھتے تھے جن کا کلام آج بھی تاریخ اپنے سینہ میں محفوظ کر رکھے ہوئے ہے ۔

          چک حکمران، عالموں اورصوفیوںکا بھی بڑا احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تاریخ حسن (جس کے مصنف خود اہل سنت ہے)میں آیا ہے کہ '' علی چک اور یوسف شاہ چک '' پابرہنہ کشمیر کے معروف صوفی شیخ حمزہ مخدوم کی خدمت میں کسب فیض کے لئے جاتے تھے'' جس کا ثبوت آج بھی بابا داؤدخاکی کے قصیدہ غسلیہ میں موجود ہے جو انھوں نے علی شاہ چک اور یوسف شاہ چک کی تعریف و تمجید میں کہا ہے حسین شاہ نے علم و دانش کو عام کرنے کے لئے گاؤں گاؤں میں مدرسے قائم کئے تھے اور اعلی تعلیم کے لئے ایک کالج بھی کھول رکھاتھا۔ اسی کے ساتھ ایک کتاب خانہ اور لڑکوں کے رہنے کے لئے ایک ہوسٹل کا بھی انتظام کیا تھا اور کالج کے اخراجات کے لئے زینہ پورہ گاؤں کی آمدنی مقرر کردی تھی ۔

          اسی طرح چک دور میں یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون نے کشمیری شاعری کی بنیاد قائم کی۔ جس پر آگے چل کر کشمیری شاعری کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ۔ چک بادشاہ چونکہ فنون لطیفہ کے سرپرست اور حامی تھے ان کے عہد حکومت میں خوش نویسی کو بھی کافی عروج حاصل ہوا اس کے علاوہ خط نستعلیق نے بھی بہت زیادہ ترقی کی ۔

          لیکن شیعوں کے مخالفوں نے ان انصاف پسند اور عدل پرور حکمرانوں کو بدنام کرنے کے لئے ان پربہت سارے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں حالانکہ انہوں نے خود ہی ان کی عدل خواہی اور انسان دوستی کا یوں اعتراف کیا ہے کہ '' مذہبی روا داری کرتے ہوئے ملک میں حنفی قوانین نافذ کئے'' ،''ملک کی قضاوت کی کرسی پر اہل سنت قاضی کو بٹھایا  مسجد کا خطیب اہل سنت ہی رکھا. عدل و انصاف سے کام لے کر اپنے بیٹے کو بھی نہیں بخشا بلکہ اس کو بھی جرم کی سزا میں تختہ دار پر لٹکادیا وغیرہ'' 

          حالانکہ شیعوں کی حکومت سے صرف٥ سال پہلے مرزاحیدر کاشغری کے ہاتھوں ان پر ڈھائے جانے والے بے انتہا مظالم کا ذکر خود انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور ان سے بخوبی واقف ہیں۔لیکن مبارک ہوایسے فراخ دل رکھنے والے چک حکمرانوں پرکہ جنہوں نے ظالم حکمرانوں کی طرح مرزا حیدر کی جارحیت کا قصاص بے گناہ عوام سے نہ لیا۔ بلکہ ابنی عدالت گستری میں سب کو شامل کرکے حتیٰ اپنے مخالفوں کو بھی داد دینے پرمجبور کیا۔

غلام محمد گلزار

ghm.gulzar@gmail.com