کھرماتما

تحریر: مہر ماہ

| شائع جون 02, 2022 | 19:46 شام

کھرماتما کسی ملک کے بادشاہ کا با اعتماد وزیر تھا۔ اختیارات کا آہستہ آہستہ منبع بن گیا۔بادشاہ کے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے لگا تو مخالفین اس کے درپے ہو گئے،, پیچھے پڑ گئے تبرے ملامت، گالی گلوچ، بد دعائیں،طنز تنقید جو منہ میں آتا کہنے لگے اور پھر ایسا ہوا کہ بادشاہ نے کھر ماتما کے کچھ فیصلوں پر باز پرس کی تو وہ بادشاہ کے خلاف ہو گیا ۔ قصہ مختصر وہ اتنا طاقت ور ہو چکا تھا کہ بادشاہ کو تخت سے اتارا اور ان لوگوں کو تخت پر بٹھا دیا جو اس کے اور بادشاہ کے سخت مخالف بلکہ دشمن تھے ان کو اپنی

اوقات کا پتہ تھا لہٰذا کھر ماتما کے پہلے کی طرح اختیارات برقرا رکھے گئے۔ کھرماتماپہلے والے بادشاہ اور اس کے حامیوں پر نئے بادشاہ کی انتظامیہ کے ذریعے قہر بن کر ٹوٹتا رہا،بجلی بن کر گرتا رہا اور پھر ایسا ہوا ۔ کیا ہوا یہ پھر سہی۔ قوم بری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔

پرو عمران اور اینٹی عمران میں یہ تقسیم ہوئی ہے۔نفرتیں انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔بلڈ تھر سٹی مائنڈ سیٹ خونخوار ذہنیت کھل کر سامنے آرہی ہے۔ عمران خان ایک اور مارچ نکالنے کے لیے تیار ہیں ۔ اس کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ رانا ثناءاللہ ایسا کرنے والوں کو بد روحیں قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں پہلے کی طرح بندوبست کریں گے،کچل کر رکھ دیں گے۔ ادھر محمود خان وزیر اعلیٰ کے پی کے ان کی طرف سے خوفناک عزائم سامنے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ فورس کے ساتھ آئیں گے۔ایسا ہوا تو یہ تباہ کن ہوگا۔ سپریم کورٹ سے عمران خان اجازت مانگ رہے ہیں اور یقین دلا رہے ہیں کہ پر امن رہیں گے۔ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ اب مقابلے کی تیاری بھی ہے۔سپریم کورٹ میں حکومت اپوزیشن کے ظاہر کئے گئے عزائم کا حوالہ دے کر لانگ مارچ کی مخالفت کرے گی۔ عمران خان کی 6دن کی ڈیڈ لائن ختم ہو چکی وہ جلد اگلا لائحہ عمل دینے والے ہیں۔ اسی دوران اسمبلیوں میں جانے کی بحث بھی جاری ہے۔

شاہ محمود قریشی گروپ اسمبلیوں میں جانا چاہتا ہے۔ کور کمیٹی اجلاس میں اس پر بحث ہوئی۔ عمران نے پھر انکار کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر سوچ موجود ہے کہ اسمبلیوں میں جانا چاہیے یہ کسی حد تک عمران خان کو قائل کررہے ہیں۔ عمومی رائے ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ کے اندر بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ عمران خان بیک وقت سیاسی اور قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دونوںسے حکمران اتحاد زچ ہے۔ مریم نواز شریف زیادہ ہی برہم ہیں۔ وہ پہلے عمران خان کو توشہ خان کہتی تھیں۔ اب فتنہ خان کہنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کئی بار کہہ چکی ہیں کہ فتنے کا جلد خاتمہ کیا جائے ۔ ایسے احکامات وہ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان کو دیتی ہیں جس ہر عمل رانا ثناءاللہ موچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کرتے رہتے ہیں۔ مریم نے کہافتنہ خان واحد شخص ہے جس کا اسرائیل سے براہ راست واسطہ ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ حکومتی و فد اسرائیل گیا جس کی تصدیق صدر اسحاق زورگ نے کی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔ وزارت داخلہ کی تردید کے بعد مریم اورنگ زیب نے کہا کہ احمد قریشی کو برطرف کر دیا گیا ہے،وہ سرکاری ملازم تھا اسرائیل کا دورہ ذاتی حیثیت میں کیا جس سے حکومت کی سبکی ہوئی ۔

احمد قریشی کی بر طرفی کیوں؟ اسرائیل کو تسلیم کرنا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا مگر جو پٹرول اتنا مہنگا کر سکتے ہیں ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔ ان سے بعید نہیں یہ فیصلہ بھی کردیں۔ بلاول وزیر خارجہ بننے کے بعد موجیں اڑا رہے ہیں دبئی تو دوسرا گھر ہے۔ واشنگٹن ، بیجنگ، جنیوا اور اب ترکی کا دورہ ۔ وہ ابھی وہیں تھے کہ شہباز شریف صاحب بھی چلے گئے ہیں بلاول کے آنے اور شہباز شریف کے جانے سے قبل میڈیا پر سرکاری خزانے سے جاری کئے جانیوالے اشتہارات وہاں پہنچ گئے ہیں۔ شہباز شریف کے فرزند کی کابینہ نے حلف اٹھالیا۔ وہ حکومت جس کی بنیاد برف پر رکھی گئی اور تعمیر روئی کے گالوں سے ہوئی اسے مکمل قرار دیا جا رہا ہے۔ بلیغ الرحمنگورنر تعینات ہو گئے۔

رات بارہ بجے کھل کر ساڑھے بارہ بجے فیصلہ دینے والی عدالتوں کی طرف سے عمر سرفراز چیمہ کی گورنری سے برطرفی کیخلاف درخواست پر سماعت دو جون کو رکھی گئی تھی۔نیا گورنر آگیا۔ سرفراز چیمہ کی درخواست رات گئی بات والی ہوگئی۔ علی ظفر ہائی کورٹ میں حمزہ حکومت کے خلاف پورا زور لگا رہے ہیں۔ جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں دیکھیں کیا فیصلہ ہوتاہے۔ دن ٹپاﺅ حکومت کا ایک اور دن گزر گیا، شہباز حکومت کا خاتمہ کب ہوگا۔ حمزہ کی حکومت کب رخت سفر باندھے گی۔ اس کا انحصار اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر ہے تو وہ نادان ہے، جو سمجھتا ہے کہ عمران خان کے دباؤ پر ہوگا تو وہ معصوم ہے۔ فیصلہ دھرماتما نے کرنا ہے۔ جس روز اس کی انا کو تسکین مل گئی منظر نامہ بدل سکے گا۔