نہ حکمرانوں نے کچھ کیا نہ عمران خان کام آئے،جرمنی سے خزیمہ نصیر کے بارے میں افسوس ناک خبر آگئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 05, 2016 | 07:12 صبح

 

 

لاہور(خصوصی رپورٹ :شیر سلطان ملک) جرمنی کے شہر زولنگن کے ایک ہسپتال میں تین ماہ سے بے یار ومددگار پڑا ڈسکہ کا نوجوان خزیمہ نصیر جمعہ کے روز انتقال کر گیا ۔خزیمہ کا نتقال جمعہ کی صبح دس بج کر اڑھتالیس منٹ پر ہوا۔

انتقال سے قبل خزیمہ نصیر کو جسم میں شدید درد ہوا تھا جسکے بعد وہ کومہ کی حالت میں چلا گیا تھا ۔

ضلع سیالکوٹ کے ش

ہر ڈسکہ کا رہائشی یہ 25 سالہ نوجوان سنہرے مستقبل کے خواب لیے پناہ گزین کے طور پر جرمنی کی طرف عازم سفر ہوا تھا ۔

اس سفر میں ایران میں بارڈر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد خزیمہ کسی نہ کسی طرح چلتا اور لنگڑاتا جرمنی پہنچ گیا مگر ایران میں ٹانگ پر لگی گولی کا زخم خراب سے خراب ہوتا چلا گیا ۔

آخر جب اس نے جرمنی میں ایک ہسپتال سے اپنا معائنہ کروایا تو انکشاف ہوا کہ وہ ہڈیوں کے کینسر کا مریض ہے اور یہ مرض انتہائی خطرناک مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے ۔

یہاں اس بات کا ذکر لازمی ہے کہ جرمنی میں خزیمہ نصیر کو بلا امتیاز ہر قسم کی طبی سہولیات مہیا کی گئیں۔ مکمل طور پر قلاش ہونے کے باوجود کسی نے اسے دھکے دے کر ہسپتال سے نہیں نکالا بلکہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا اس کے علاج کی ہر کوشش کی گئی اسکی خوراک کا خیال رکھا گیا حتیٰ کہ اس کے اندر زندگی کی امنگ پیدا کرنے اور مایوسی سے بچانے کے لیے اسکی ہر طرح سے دلجوئی کی گئی۔

دو ہفتے قبل جب جرمنی کے شہر زولنگن کے ہسپتال میں ڈاکٹروں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود خزیمہ کا مرض شدت اختیار کرتا گیا تو ڈاکٹروں کے ایک پینل نے اس کا علاج بند کر دیا ۔ ماسوائے اس کے کہ اسے شدید درد کی صورت میں درد دور کرنے والی دوائیں مسلسل دی جاتی رہیں ۔

اس مرحلہ پر خزیمہ نصیر نے اپیل کی تھی کہ وہ جانتا ہے کہ اس کی زندگی کے چند دن ہی باقی ہیں لیکن وہ تابوت میں بند ہو کر پاکستان نہیں جانا چاہتا اور اسکی خواہش ہے کہ اسے زندہ حالت میں کسی نہ کسی طرح واپس پاکستان پہنچا دیا جائے ۔

بنیادی طور پر جرمنی کی ایک انٹرنیشنل نیوز ویب سائٹ ڈی ڈبلیو پر خزیمہ نصیر کی یہ اپیل پبلش کی گئی اور پاکستان میں حسن نثار ڈٖاٹ پی کی نے اسکی یہ اپیل پھیلادی ۔ پاکستان کے حکمرانوں سیاہ سفید کے مالکوں سے اپیل کی گئی حتیٰ کہ شوکت خانم ہسپتال کے بانی عمران خان کی توجہ اس طرف دلانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔

مگر افسوس کہ پاکستان کے کسی بااثر شخص کا بیٹا بھانجا یا بھتیجا ایسے حالات کا شکار ہوتا تو پوری سرکاری مشینری کا رخ اس کی طرف موڑ دیا جاتا مگر نہ تو کزیمہ نصیر کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور نہ ہی نیازی خاندان سے بلکہ یہ تو ایک معمولی سا پاکستانی نوجوان تھا جو پاکستان میں باعزت روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اچھے مستقبل کا خواب لے کر جرمنی جیسے ملک کو منزل بنا کر چلا تھا ۔ اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ اتنی اذیت ناک اور بے بسی کی موت اس کا مقدر بنے گی۔اور زندہ حالت میں وہ پاکستان کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا ۔

جرمنی میں موجود درجنوں پاکستانی شہریوں نے حسن نثار ڈاٹ پی کے ، کے ذریعہ معلومات اکٹھی کرکے زولنگن کے اس ہسپتال سے رجوع کیا اور اپنے طور پر ان لوگوں نے ذاتی اور اجتماعی حیثیت میں اتنے فنڈز اکٹھے کر لیے کہ خزیمہ نصیر کو باآسانی پاکستان پہنچایا جا سکتا تھا مگر یہاں پھر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا ۔

جرمنی اور دیگر انٹرنیشنل ائیر لائنز نے خزیمہ نصیر کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا کیونکہ ڈاکٹروں کا ایک پینل یہ قرار دے چکا تھا کہ خزیمہ نصیر کی حالت اتنی خراب ہے کہ اسکے اگلے چند منٹوں یا چند گھنٹوں کے بارے میں بھی یقین سے کہنا مشکل ہے کہ وہ زندہ ہو گا یا نہیں۔ جرمنی میں مقیم پاکستانی شہریوں نے تو یہاں تک کیا کہ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو جرمنی سے پاکستان خزیمہ نصیر کے ساتھ آنے پر آمادہ کر لیا اور اسکی ٹکٹ بھی کنفرم کروا لی جو کہ یکم نومبر کی تھی۔ مگر اس روز خزیمہ کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ائرلائن نے پھر ٹکٹ دینے سے انکار کردیا ۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ابھی تک خزیمہ نصیر کی ڈیڈ باڈی جرمنی میں ہیں وہاں موجود پاکستانی شہری اسکی لاش پاکستان (ڈسکہ) پہنچانے کے لیے انتظامات میں مصروف ہیں۔

اپنی وفات سے ایک روز قبل خزیمہ نصیر نے شدید نقاہت اور جسمانی درد کے باوجود اشاروں سے اپنی زندگی کی آخری نماز ادا کی اور اللہ سے دعا کی تھی کہ وہ جرمنی اور پاکستان کے بااثر لوگوں اور حکمرانوں کے دل میں رحم ڈالے کہ وہ اسکی جلد سے جلد پاکستان واپسی کا انتظام کر دیں۔

مگر افسوس کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وطن واپسی کی خواہش دل میں لیے خزیمہ نصیر جرمنی کے ہسپتال میں انتقال کر گیا ۔

 

 

FacebookTwitterGoogle+WhatsAppLinkedIn