حالاتِ زندگی سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ
لاہور(مہرماہ رپورٹ):حضرت شیخ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔ آپ کا دل انوار منزل ہمیشہ کتب معتبرہ تصوف کے مطالعہ کی طرف مائل رہتا تھا۔ آپ تفسیر و حدیث ، اصول و کلام اور فقہ امام ابوحنیفہ میں استخصار تمام رکھتے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت سید احمد بن دانیال غزنی( افغانستان ) سے ہندوستان آئے اور شہر بدایوں (بھارت) میں متوطن ہوئے۔
حضرت شیخ نظام الدین اولیا اسی شہر بدایوں میں ماہ صفر 634 ہجری میں متولد ہوئے۔ پانچ برس کے تھے کہ والد ماجد نے انتقال فرمایا۔ والدہ محترمہ نے انہیں ایک مکتب میں داخل کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیمی استعداد کا یہ عالم تھا کہ بدایوں میں انہیں مزید تعلیم دینے والا کوئی مدرسہ موجود نہیں تھا۔ آخر حضرت اپنی والدہ ماجدہ کو لیکر دہلی آئے اور ہلال چشت دار کی مسجد کے نیچے ایک حجرہ میں سکونت اختیار کی۔
اس وقت دہلی میں ایک فاضل متبحر اور سرآمد علمائے وقت خواجہ شمس الدین خوارزی تھے جنہیں بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن نے شمس الملک کا خطاب دیکر منصبِ وزارت تفویض کیا۔
تاج الدین سنگ ریزہ نے انکی مدح میں لکھا ہے
شمسا کنوں بکام دلِ دوستاں شدی
فرماندہِ ممالکِ ہندوستاں شدی
وزیر ہونے سے پہلے شمس الملک درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا ان سے مل کر ان کے شاگردوں کی سلک میں منسلک ہو گئے ۔ ان کے پاس ایک حجرہ خاص مطالعہ کے واسطے تھا جس میں صرف تین شاگرد ( جو انتہائی ذہین اور صاحبِ استعداد ہوتے) سبق پڑھتے تھے۔ باقی سب شاگرد حجرہ کے باہر سبق پڑھتے۔
حضرت شیخ نظام الدین کے زمانہ تدریس میں ان تین خوش قسمت شاگردوں میں سے ایک ملا قطب الدین ناقلہ ، دوسرے ملا برہان الدین عبدالباقی ، اور تیسرے حضرت شیخ نظام الدین اولیا تھے۔
شمس الملک کو جب حضرت شیخ نظام الدین اولیا کی تیزی فہم اور ذہانتِ طبعی کا اندازہ ہوا تو وہ سب شاگردوں سے زیادہ ان کی تعظیم کرنے لگے۔ مولانا شمس الدین کی عادت تھی کہ کسی روز کوئی شاگرد مدرسے میں نہ آتا تو اگلے روز اس سے از رہِ دل لگی فرماتے:
میں نے کیا قصور کیا تھا کہ تو غیر حاضر ہوا۔ مجھے بتا، تاکہ میں پھر وہی قصور کروں،
لیکن شیخ نظام الدین اولیا جب کسی وجہ سے مدرسے میں نہ آتے تو مولانا شمس الدین انہیں یاد کر کے یہ شعر پڑھتے۔
باری کم از آنکہ گاہ گاہے
آئی و بما کنی نگاہے
شیخ نظام الدین اولیا زمانہ تدریس میں حضرت شیخ نجیب الدین متوکل (برادر حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر) کے ہمسایہ تھے۔جو بہت سے علماء دہلی پر فوقیت رکھتے تھے۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیا اکثر ان کی صحبت بابرکت میں بیٹھتے اور مستفید ہوتے۔
شیخ نظام الدین اولیا تدریس سے فارغ ہو کر مراتبِ عالیہ پر فائز ہوئے تو انہیں معاش کی فکر ہوئی۔ ایک روز انہوں نے دورانِ گفتگو شیخ نجیب الدین متوکل سے کہا کہ میرے لیے دعائے خیر فرمائیں کہ میں کسی مقام کا قاضی مقرر ہو جاؤں اور خلقِ خدا کو انصاف سے راضی کروں۔ حضرت شیخ نجیب الدین یہ سن کر خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ شیخ نظام الدین اولیا کو گمان گزرا کہ شاید شیخ نجیب الدین متوکل نے ان کی بات نہیں سنی۔ اس لیے دوبارہ با آوازِ بلند کہا : حضرت ! دعا فرمائیے کہ میں کسی مقام کا قاضی بن جاوں۔ اس مرتبہ شیخ نجیب الدین متوکل نے فرمایا : نظام الدین ! قاضی نہ بنو ، کچھ اور بنو۔ پھر مشورہ دیا کہ میرے بھائی شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر سے ملاقات کرو۔
اس رات شیخ نظام الدین اولیا جامع مسجد دہلی میں مقیم تھے ۔ اتفاق سے صبح اذان سے قبل موذن نے مینارہ پر کھڑے ہو کر یہ آیت پڑھی :
الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ۔
یہ سنتے ہی حضرت کا حال متغیر ہوا اور نورِ الہی نے ان کو گھیر لیا۔
اس وقت شیخ العالم فرید الدین مسعود گنج شکر کی بزرگی اور کرامات کا شہرہ عالمگیر تھا۔ یوں بھی شیخ نجیب الدین متوکل کی مجالس میں غائبانہ حضرت شیخ العالم کی سیرت کے اوصاف سن کر شیخ نظام الدین اولیا ان کی زیارت کے پہلے ہی مشتاق تھے۔ اب جو صبح ہوئی تو بغیر زادِ راہ کے پیادہ پا قصبہ اجودھن (پاک پتن شریف ) کی سمت روانہ ہو گئے اور پنجشنبہ کو ظہر کی نماز کے وقت حضرت شیخ العالم کی زیارت باسعادت سے مشرف ہوئے۔ حضرت شیخ العالم نے انہیں دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا
اے آتشِ فراقت جانہا خراب کردہ
سیلاب اشتیاقت دلہا کباب کردہ
شیخ نظام الدین نے چاہا کہ شیخ العالم سے اپنے دلی اشتیاق و اخلاص کا حال بیان کریں ۔ لیکن ان پر اس قدر سہشت غالب ہوئی کہ کچھ عرض نہ کرسکے۔ حضرت شیخ العالم نے ان کی یہ حالت مشاہدہ کر کے فرمایا:
لکل دخیل دھشۃ
پھر بڑی محبت سے فرمایا : مرحبا ، خوش آمدید۔ ان شاء اللہ العزیز دینی و دنیوی نعمتوں سے سرفراز ہو گے پھر شیخ نظام الدین اولیا نے حضرت شیخ العالم سے خرقہ درویشی پایا اور مریدانِ خاص کی سلک میں منتظم ہوئے۔
ان دنوں حضرت شیخ العالم گنج شکر نہایت تنگ دستی میں مبتلا تھے آپ کے متعلقین اور فرزند اکثر فاقہ سے وقت گزارتے اس کے باوجود خانقاہ فلک پائی گاہ کا کوئی فرد آزردہ و دلگیر نہ تھا۔ ہر ایک کے چہرے پر صبر و شکر کی رونق تھی ۔ مولانا بدر الدین اسحاق بخاری کہ جامع منقول و معقول تھے ، لنگر خانہ کے لیے جنگل سے روٹیاں لاتے اور مولانا شیخ جمال الدین ہانسوی صحرا سے ڈیلے (جس کا لوگ عموماً اچار بناتے ہیں) لاتے اور مولانا حسام الدین کابلی پانی لاتے اور لنگر خانہ کی دیگیں دھوتے۔اور شیخ نظام الدین اولیاء ازروئے صدق و صفا کھانا تیار کرتے اور افطار کے وقت شیخ العالم کی مجلس میں درویشوں کے سامنے پیش کرتے ۔
ایک دن جب تمام حاضرین مجلس اپنے اپنے مقام پر بیٹھ گئے اور کھانا سامنے رکھا گیا تو حضرت شیخ العالم نے لقمہ اٹھا کر فرمایا ۔ یہ لقمہ میرے ہاتھ میں گراں معلوم ہوتا ہے ۔ یہ کہہ کر لقمہ کاسی میں رکھ دیا۔
شیخ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ شیخ العالم کا یہ کلام سنتے ہی میرا بدن کانپنے لگا ۔ فوراً ایستادہ ہو کر نہایت ادب سے عرض کیا: غریب نواز : لکڑیاں اور ڈیلے اور پانی مولانا بدر الدین ، مولانا حسام الدین اور شیخ جمال الدین لائے ہیں ، شبہ کا سبب معلوم نہیں غریب نواز پر سب حال روشن ہے۔
شیخ العالم نے فرمایا: سالن میں جو نمک ڈالا گیا ہے وہ کہاں سے آیا ہے؟ شیخ نظام الدین نے یہ سنتے ہی سر زمین پر رکھ کر عرض کی: آج خانقاہ میں کچھ موجود نہ تھا ، اس لیے دیگ میں نمک قرض لے کر ڈالا ہے۔
شیخ العالم نے ارشاد فرمایا : فقراء فاقہ سے مر جائیں تو بہتر ہے ، لیکن لذتِ نفس کی خاطر انہیں کسی سے قرض نہیں لینا چاہیے۔ کیوں کہ قرض اور توکل کے درمیان بعد المشرقین ہے کہ اگر ادا نہ ہو تو اس کا وبال قیامت تک مقروض کی گردن پر رہے گا۔ پھر فرمایا کہ یہ کھانا درویشوں کے آگے سے اٹھا کر محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
شیخ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ میں کبھی کبھار دوسرے لوگوں کی طرح ضرورت کے وقت قرض لے لیا کرتا تھا ، لیکن میں نے اس روز پکا ارادہ کیا کہ آئندہ کبھی سخت ضرورت میں بھی قرض نہ لوں گا۔ حضرت شیخ العالم نے وہ کمبل جس پر وہ تشریف فرما تھے ، مجھے عنایت فرمایا اور دعا فرمائی : الہ العالمین ! آئندہ نظام الدین کو کبھی قرض کا محتاج نہ کرنا۔
ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبہ کمال کو پہنچے تو شیخ العالم نے انہیں خلقِ خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر659 ہجری کو دہلی میں روانہ فرمایا۔
دہلی میں شیخ نظام الدین اولیاء نے غیاث پور میں سکونت اختیار فرمائی ۔ یہاں دو شخص آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ ایک شیخ برہان الدین غریب (جو دولت آباد دکن میں مدفون ہیں) اور دوسرے شیخ کمال الدین یعقوب (جن کا مزار پٹن گجرات میں واقع ہے) یہ دونوں بزرگ دوسرے خلفاء سے پہلے خرقہ خلافت پاکر تحصیل کمال اور ریاضت نفس میں مشغول ہوئے۔ غیاث پور میں شروع شروع میں نہایت تنگی سے گزر اوقات ہوتی تھی ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ چار چار روز تک کھانے کو نہ ہوتا۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء اور دیگر درویش پانی سے روزہ افطار کرتے۔ انہی دنوں ایک صالحہ عورت نے جو حضرت سے توسل رکھتی تھی اور ہمسایہ میں رہتی تھی۔ سوت کات کر گندم خریدی اور کچھ آٹا حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں بطور نذرانہ بھیجا۔
حضرت سلطان المشائخ نے شیخ کمال الدین یعقوب سے فرمایا کہ اس آٹے کو دیگ میں ڈال کر پکاؤ شاید کسی آنے والے کا حصہ ہے۔ شیخ کمال الدین اس کو پکانے میں مشغول تھے کہ اچانک ایک درویش گڈری پوش کسی مقام سے وارد ہوے اور آتے ہی حضرت سلطان المشائخ سے کہا : جو ماحضر ہے ، اس سے دریغ نہ کر۔
حضرت نے فرمایا: آپ چند لمحے استراحت فرمائیں ۔ ابھی کھانا تیار ہوتا ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
درویش نے کہا: جیسا بھی ہے ، فوراً لے آؤ۔
یہ سن کر حضرت اٹھے اور دونوں ہاتھوں سے پکتی ہوئی دیگ کے کنارے پکڑ کر ان کے سامنے لائے۔ درویش نے دیگ اٹھا کر زمین پر دے ماری اور فرمایا: شیخ فرید الدین گنج شکر نے نعمت باطنی شیخ نظام الدین اولیاء کو ارزانی فرمائی اور میں نے ان کی ظاہری محتاجی کی دیگ کو توڑ ڈالا۔ یہ کہا اور سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
اس کے بعد تو یہ ہوا کہ ہزاروں لاکھوں آدمی حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہوئے اور خرقہ خلافت پا کر درجہ عالی اور مقام متعالی پر فائز ہوئے۔
خیر المجالس میں ہے کہ ایک دن مولانا حسام الدین نصرت خانی اور مولانا جمال الدین نصرت خانی اور مولانا شرف الدین کاشانی حضرت شیخ المشائخ کے روبرو بیٹھے تھے۔ شیخ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی شخص دن کو صائم اور رات کو قام رہے تو یہ کام نہایت سہل ہے کہ بیوہ عورتیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں۔ لیکن مشغولی حق کہ مردانِ طلب گار اس کی بدولت بارگاہ پروردگار میں راہ پاتے ہیں اور مشاہدہ ذات کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ، وہ ان عبادتوں سے ماوراء ہے۔ حاضرین مجلس نے جب یہ کلام سنا تو خیال کیا کہ شیخ کسی خصوصی عبادت کا ذکر فرمائیں گے لیکن حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا: انشاء اللہ تعالی میں کسی مناسب وقت پر اس کا تذکرہ کروں گا۔ عزیزوں نے کئی ماہ اس انتظار میں گزار دئیے۔
ایک روز یہ سب حضرات مجلس میں حاضر تھے کہ محمد کاشف (جو سلطان علاو الدین خلجی کے دیوان کا داروغہ تھا) وارد ہوا اور حضرت کے سامنے مودب بیٹھ گیا۔ حضرت نے پوچھا : محمد کاشف! کہاں تھے؟
عرض کی: غریب نواز ! دیوان عام میں تھا۔ آج تو سلطان علاوالدین خلجی نے پچاس ہزار روپے بندگانِ خدا کے واسطے انعام فرمائے ہیں۔
یہ سن کر حضرت شیخ نے مولانا حسام الدین نصرت خانی اور دوسرے حاضرین کو متوجہ ہو کر فرمایا:
بھلا بتاؤ ، بادشاہ کا یہ انعام بہتر ہے یا عہد کا وفا کرنا بہتر ہے جو ایک دفعہ میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا؟
یہ سن کر سب حاضرین آداب بجا لائے اور عرض کی: وفائے عہد ہش بہشت سے بہتر ہے۔ پچاس ہزار نقرہ کی کیا حیثیت ہے!
سلطان المشائخ نے تینوں بزرگوں کو قریب بلایا اور باقی حاضرین کو رخصت کر کے ارشاد فرمایا: مقصود تک پہنچنے کا راستہ خلوت میں مشغولی حق ہے ۔ طالب کو چاہیے کہ بے ضرورت باہر نہ آئے اور ہمیشہ با وضو رہے ، سوائے وقتِ قیلولہ کے کہ اس وقت غلبہ خواب ہوتا ہے۔ ہمیشہ صائم الدہر رہے ، یہ ممکن نہ ہو تو کم سے کم غذا پر قناعت کرے اور سوائے ذکر حق اور شدید ضرورت کے کبھی زبان نہ کھولے۔ اہل دنیا سے مختصر کلام کرے۔ منقول ہے کہ یہ تینوں مشائخ حضرت شیخ نظام الدین اولیا کے انفاس کی برکت سے ان صفاتِ عالیہ سے متصف ہوئے اور کامل ہو کر جملہ واصلین سے ہوئے۔
مولانا شہاب الدین امام سے منقول ہے کہ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ایک روز حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں اور مولانا برہان الدین غریب ہمراہ تھے۔ حضرت سلطان المشائخ حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کر کے حوض شمسی کے کنارے رونق افروز ہوئے۔ وہاں اس وقت خواجہ حسن علاء سنجری (کہ سن اس کا پچاس برس سے زیادہ تھا ) یاروں کے ساتھ مے نوشی میں مشغول تھا۔ جب اس نے شیخ کو آتے ہوئے دیکھا تو آپ کے سامنے آ کر یہ دو شعر پڑھے۔
سالہا باشد کہ باہم صحبتیم
گر ز صحبتہا اثر بودی کجاست
زہد تاں فسق از دل ما کم نہ کرد
فسق ما یاں بہتر از زہد شماست
حضرت شیخ نے یہ اشعار سنے تو فرمایا :
صحبت میں تاثیر ہوتی ہے۔ انشاء اللہ تمہیں نصیب ہو گی۔
یہ سننا تھا کہ خواجہ حسن سر برہنہ حضرت کے قدموں میں گر پڑے اور تمام مناہی سے تائب ہو کر رفقاء سمیت مرید ہوئے۔ بعد میں خواجہ حسن نے حضرت کے ملفوظات پر مشتمل کتاب “فوائد الفواد” تصنیف کی۔ جس کے بارے میں حضرت امیر خسرو نے کہا کہ کاش میری تمام تصانیف خواجہ حسن کے نام منسوب ہوتیں اور ان کی کتاب فوائد الفواد میرے نام منسوب ہوتی۔
کہتے ہیں کہ ایک روز سلطان علاو الدین خلجی نے ایک بڑا تھال زر و جواہر سے بھر کر سلطان المشائخ کی خدمت میں بھیجا۔ اس وقت حضرت کی خدمت میں ایک قلندر بیٹھا تھا۔ اس کی نگاہ زر و جواہر پر پڑی تو بولا۔
یا شیخ ! ہدایا مشترک۔ سلطان المشائخ نے از روئے ظرافت فرمایا :- اما تنہا مشترک۔
قلندر نے مایوس ہو کر پھر اپنی بات دہرائی۔ سلطان المشائخ نے اسے قریب بلایا اور فرمایا : تنہا مشترک سے میرا مطلب یہ تھا کہ تنہا تجھے مبارک ہو۔ یہ سن کر قلندر نے اس تھال کو اٹھانا چاہا لیکن وزنی ہونے کی وجہ سے اٹھا نہ سکا۔ حضرت شیخ المشائخ نے خادموں سے کہا کہ قلندر کی مدد کریں۔
خضر خان حضرت سلطان المشائخ کا مرید تھا۔ قطب الدین مبارک شاہ اسے قتل کر کے تختِ دہلی پر متمکن ہوا تو ہ سلطان المشائخ سے بھی پرخاش رکھنے لگا۔ ان دنوں سلطان المشایخ کے لنگر خانہ کا خرچ غلہ کے علاوہ دو ہزار تنکہ روزانہ تھا۔
سلطان نے قاضی محمد غزنوی سے (جو پہلے ہی سلطان المشائخ سے بے حد حسد رکھتا تھا) پوچھا : شیخ کا اس قدر خرچ کہاں سے آتا ہے؟ قاضی نے کہا اکثر امرائے سلطانی نذرانہ سے شیخ کی اعانت کرتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصہ آیا اور حکم دیا کہ جو شخص شیخ کے مکان پر جائے گا یا نذر کی اشرفی بھیجے گا ، سخت معتوب ہو گا۔
حضرت کو یہ حال معلوم ہوا تو اپنے خادم خاص خواجہ اقبال کو بلایا اور حکم دیا کہ کل سے لنگر کا خرچ دگنا کر دیا جائے پھر ہدایت فرمائی کہ جس وقت بھی تمہیں روپوں کی ضرورت ہو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر حجرہ کے طاق میں ہاتھ ڈالنا اور بقدر ضرورت نکال لینا۔
اکثر امرائے سلطانی نے بادشاہ کے خوف کی وجہ سے حضرت کی خدمت میں حاضری ترک کر دی لیکن بایں ہمہ فتوحات کا یہ عالم تھا کہ انہی دنوں ایک تاجر جسے رہزنوں نے لوٹ لیا تھا۔ حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے پاس حضرت صدر الدین عارف (پسر شیخ بہاو الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ) کا سفارش نامہ تھا۔ سلطان المشائخ نے خادم سے فرمایا کہ علی الصباح سے چاشت تک جو زرِ نذرانہ آئے وہ اس تاجر کے سپرد کر دو۔ منقول ہے کہ بارہ ہزار تنکہ اس تاجر کو موصول ہوئے۔
حضرت سلطان المشائخ کے لنگر کے بارے میں جب بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو وہ دل ہی دل میں نہایت شرمندہ ہوا۔ لیکن پھر بھی از راہ جہالت و خجالت حضرت کو پیغام بھیجا کہ شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی میری ملاقات کو آتے ہیں ، آپ بھی قدم رنجہ فرمائیں تو کرم ہو گا۔
حضرت نے پیغام بر سے فرمایا : میں گوشہ نشین آدمی ہوں ، کہیں آتا جاتا نہیں۔ دوسرے ہمارے بزرگوں کا یہ قاعدہ نہیں تھا کہ وہ شاہی دربار میں جائیں اور بادشاہ کے مصاحب بنیں۔ لہذا میں معافی کا خواستگار ہوں۔
بادشاہ تک یہ پیغام پہنچا تو بادہ نخوت سے اس کے ہوش و حواس سلب ہو گئے۔ فوراً جواب بھجوایا کہ آپ کو ہفتہ میں دو بار میری ملاقات کو آنا پڑے گا۔ حضرت کو یہ پیغام ملا تو آپ نے خواجہ حسن علا سنجری کو بادشاہ کے پیر شیخ ضیا الدین رومی کے پاس بھیجا ، خواجہ حسن نے انہیں حضرت کا پیغام دیا کہ وہ بادشاہ کو سمجھائیں کہ درویشوں کو تکلیف دینا کسی مذہب میں درست نہیں سمجھا جاتا۔ بادشاہ کی خیریت اسی میں ہے کہ وہ فقیروں کو نہ ستائے۔ دوسرے ہمارے خانوادہ کی ایک مخصوص روش ہے وہ شاہی درباروں میں نہیں جاتے تھے ، میں بھی ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
خواجہ حسن نے حضرت کا پیغام شیخ ضیا الدین رومی کو پہنچا دیا لیکن یہ خبر بھی لائے کہ شیخ رومی کا دردِ شکم سے بُرا حال ہے اور وہ بیٹھ کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتے۔
اتفاق سے تیسرے روز شیخ رومی نے انتقال فرمایا حضرت ان کے ہاں تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔ بادشاہ پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ جونہی خلقت کو حضرت کی تشریف آوری کا علم ہوا تو وہ حضرت کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑی۔ یہاں تک کہ بادشاہ اکیلا کھڑا رہ گیا۔ اس صورتِ حال نے بادشاہ کو سخت برہم کیا۔ دربار میں آتے ہی اس نے ایک محضر نامہ تیار کر کے حکم دیا کہ اگر شیخ ہفتہ میں ایک بار میری ملاقات کو نہ آئے تو ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
بادشاہ کے حکم کے مطابق سید قطب الدین غزنوی ، مولانا برہان الدین ہروی ، شیخ وحید الدین قندوزی اور دیگر اکابر نے حضرت سلطان المشائخ تک یہ پیغام پہنچایا اور کہا کہ بادشاہ سخت برہم ہے اگر ایک مرتبہ دیوانِ عام میں تشریف لے جائیں تو امورِ درویشی میں فرق نہ آئے گا۔ یہ سن کر حضرت نے صرف یہ فرمایا : دیکھو ، اللہ کی طرف سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
حضرت کی اس گفتگو سے ان اکابر نے یہ سمجھا کہ حضرت سلطان المشائخ بادشاہ کے ہاں جانے کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بادشاہ سے جا کر عرض کی کہ ہم نے شیخ کو راضی کر لیا ہے وہ چاند رات کو ملاقات کے لئے آئیں گے۔
رات کو خواجہ وحید الدین قندوزی اور اعزالدین علی شاہ (حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی) نے آ کر حضرت کو اطلاع دی کہ بادشاہ دیوانِ عام میں آپ کے قدم رنجہ فرمانے کی خبر سن کر نہایت محظوظ ہوا ہے یہ سن کر حضرت نے فرمایا : میں ہرگز اپنے بزرگوں کی روش کے خلاف نہ چلوں گا اور بادشاہ کی ملاقات کو نہ جاؤں گا۔
دونوں بزرگ حضرت کی یہ بات سن کر سخت غمگین ہوئے ، انہیں خدشہ تھا کہ کہیں بادشاہ عاقبت نا اندیشی سے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ حضرت نے انہیں افسردہ دیکھا تو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : یقین جانو بادشاہ مجھ پر فتح یاب نہ ہو گا۔ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد نبوی میں قبلہ رو بیٹھا ہوں ۔ اتنے میں سینگوں والے ایک بیل نے مجھ پر حملہ کرنے کا قصد کیا ، لیکن جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس کے دونوں سینگ پکڑ کر ایسا پٹخا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔
بادشاہ سے ملاقات کی رات آئی تو خواجہ اقبال اور دوسرے خادموں نے عرض کیا کہ حکم ہو تو پالکی اور کہاروں کو حاضر کیا جائے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کچھ جواب نہ دیا۔ ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اطلاع آئی کہ بادشاہ کے پروردہ اور نمک خوار خسرو خاں نے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے۔