لاہور میں شرمناک دھندہ عروج پر پہنچ گیا، صف اول کی خاتون کالم نگار کو بھی شرمناک پیشکش کر دی گئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 02, 2017 | 07:25 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) ایک لڑکی کے نام سے مجھے میسج آیا کہ میں آپ سے دوستی کرنا چاہتی ہوں، میں کسی سے دوستی نہیں کرتی ، میرا یہ جواب تھا، دوسرے دن اسی نمبر سے میسج آیا کہ سوری میں لڑکی نہیں، ایک بزنس مین ہوں اور دبئی میں رہتا ہوں، آپ میرے بزنس میں شامل ہوجائیں ، آپ کو لاکھوں روپے ماہانہ مل سکتے ہیں، اچھا مجھے کونسا بزنس آتا ہے؟ آپ کے لاکھوں فالورز ہیں آپ انہیں ہمارا کسٹمر بنا دیں، ویسے تو آپ خود اتنی خوبصورت ہیں لیکن آپ کسی سے دوستی ہی نہیں کرتی تو چلو ہماری مد

د ہی کر دیں۔میں کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی اور اسکو میں نے بلاک کر دیا، لیکن لکھاری کی حیثیت سے تجسس موجود رہا ، تب میں نے معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں اور ایک لمبی چوڑی رپورٹ مل گئی ، ایک مستند ذرائع سے مزید اعدادو شمار مل گئے لیکن سوچتی تھی کہ کہاں سے شروع کروں، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیکس ورکر کی تعداد 15 لاکھ کے لگ بھگ ہوگئی ہے جبکہ صرف لاہور میں یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر ہے۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ لڑکیاں اور خواتین اس پیشے سے ماہانا تیس ہزار روپے تک کماتی ہیں، لاہور پولیس کے مطابق شہر میں جگہ جگہ جسم فروشی کے اڈے کھل گئے ہیں، بلکہ نجی اور سرکاری اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جبکہ بڑی مارکیٹوں ، بازاروں، سڑکوں، درباروں، باغوں، پارکوں اور اہم علاقوں میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔5 سال قبل شہر میں 200 قحبہ خانے موجود تھے جبکہ اب انکی تعداد 445 ہوگئی ہے، اسی طرح لاہور شہر میں جسم فروشی میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے، شہر میں ایک لاکھ سے زیادہ جسم فروش خواتین اور لڑکے موجود ہیں جنکی عمریں 13 سال سے لے کر 40 سال تک ہیں اور انکی تعداد میں ماہانہ سو سے دو سو تک اضافہ ہو رہا ہے۔جسم فروشی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا ہے کہ اس دھندے میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ، ان میں ایسی بھی ہیں جو 100 روپے میں بک جاتی ہیں اور ایسی بھی ہیں جو اپنے آپکو پیش کرنے کے لاکھوں روپے وصول کرتی ہیں، اس کا کہنا تھا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جہاں ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے وہی عورت کی عصمت سستی ہوتی جا رہی ہے۔چند سال پہلے جس معیار کی لڑکی5 ہزار میں ملتی تھی آج اس طرح کی لڑکی ایک ہزار روپے کے عوض مل جاتی ہے، کیونکہ یہ عورتیں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں، انکے بچے ضروریات زندگی کو ترستے ہیں ، پھر اس پیشے میں بے شمار لڑکے لڑکیاں شامل ہوگئی ہیں، اس لیے سودا سستا اور گاہک کم پڑ گئے ہیں، اس کے علاوہ جب زلزلہ آیا تھا تب لاہور کے بعض کوٹھی خانوں کی مشہور خواتین زلزلہ زدہ علاقوں سے بے سہارا لڑکیوں اور خواتین کو ورغلا کر لاہور لے آئی تھیں جن میں بعض کو اس کام پر لگا دیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق لیڈی پولیس انسپکٹر شافیہ بخت کو اس کاروبار کا سرغنہ کہا جاتا ہے، جس نے مبینہ طور پر دو لیڈی پولیس کانسٹیبلز کو ڈیوٹی کے بہانے لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک بلڈنگ افسر شفقت شہزاد کے پاس بھیجا ، جب رانا شفقت اور اسکے ساتھیوں نے ان کانسٹیبلز کو حوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو ان لڑکیوں نے مزاحمت کی جسکی وجہ سے ان لڑکیوں کو چھوڑ دیا گیا اور اس شرط پر جانے کا کہا گیا کہ وہ معاملہ کو زیادہ اچھالیں گی نہیں، تاہم ان لیڈی کانسٹیبلز نے ان افراد کے خلاف تھانہ سبزہ زار میں درخواست دے دی اور ایس ایچ او نے واقعہ کی اطلاع کو اعلیٰ حکام تک پہنچایا، جس پر لاہور پولیس کے آپریشن انچارج شفیق احمد نے جنسی دھندے میں ملوث ہونے کے الزام میں انسپکٹر شافیہ بخت سمیت چار اہلکاروں کو نوکری سے معطل کر دیا”