حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر دھمال کی اصل حقیقت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 03, 2020 | 19:07 شام

سر زمین سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی نظر کرم خصوصی طور پر رہی ۔یہاں دین اسلام کا پرچم لیے اللہ کے ولی اس طرح آئے کہ انہوں نے اللہ کی رحمت سے اس سر زمین کو اللہ کے نام لیواؤں سے ہر دور میں معطر رکھا ۔ یہاں دین اسلام تلوار کے بجائے لوگوں کے دلوں کو فتح کر کے پھیلتا چلا گیا۔

x">باب الاسلام سندھ میں ہزاروں بزرگانِ دین، اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام کا سلسلۂ رشد وہدایت فیوض وبرکات جاری رہا ، ان میں حضرت سیدناشیخ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔

ھجری سال میں 570 یا 573 ھجری میں آزربائيجان میں حضرت کبیر الدین کو برسہا برس کی دعاؤں کے بعد اللہ نے اولاد نرینہ کے انعام سے سرفراز کیا ۔ نیک اور متقی حضرت کبیر نے جس اولاد کے لئے حضرت علی کی بارگا ہ میں اپنے خواب میں تقاضا کیا تھا وہ اولاد ایک شہباز کی صورت ان کی گود میں آئی۔ محمد عثمانؒ کی ابتدائی تعلیم آپؒ کی والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی۔ سات برس کی عمر میں کلام پاک حفظ کرلیا۔ حضرت شیخ منصورؒ کی نگرانی میں علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔
عربی اور فارسی زبانوں میں آپ نے بہت کم عرصے میں خاصی مہارت حاصل کرلی۔ آپ کی والدہ صاحبہ آپ کی اوائل عمری میں وفات پاگئیں اور والد کا سایہ بھی والدہ کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد آپ کے سر سے اُٹھ گیا۔ ظاہری علوم کے حصول کے بعد روحانی علوم کے حصول کے لۓ حضرت نے مروند کا سفر اختیار کیا ۔

وہاں حضرت امام موسی کاظم کی اولاد میں سے حضرت ابراہیم ولی کی صحبت سے فیض یاب ہوۓ اور ان کی شاگردگی اختیار کر لی ۔جنہوں نے جلد ہی ان کے وصف کو پہچانتے ہوئے خلافت کے اعزاز سے نواز دیا ۔ مروند کے بعد عراق کا سفر اختیار کیا اور وہاں سے ایران پہنچے جہاں پر امام موسی کاظم کے روضے پو حاضری دی جہاں پر مراقبے کے ساتھ ساتھ چلہ کشی بھی فرمائی اور وہاں سے حج بیت اللہ کی زیارت کے قصد سے روانہ ہوۓ ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد باب الاسلام کی جانب سفر اختیار کیا ۔

مکران کے ساحل پر پہنچ کر توقف فرمایا ۔جہاں وادی پنچ گور کے مقام پر چلہ کشی فرمائی ۔ارد گرد کے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں مرد قلندر کی چلہ کشی نے متوجہ کیا اور وہ ان کی بارگاہ میں حاضر ہو‎ئے اور جو‍ق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے ۔ اس میدان کو دشت شہباز میں تبدیل کرنے کے بعد پسنی کی جانب روانہ ہوئے جہاں ایک گڈریا ان کے سایہ عاطفت میں آکر اپنے آپ کا ہوش کھو بیٹھا اور اس کو لوگوں نے گڈریا لعل کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اس کا مزار آج بھی پسنی میں موجود ہے ۔

وہاں سے ملتان کی سرزمین میں قدم رکھا اور اس جگہ پر بھی کثیر تعداد میں لوگوں کے قلوب کو منور کیا ۔ان کے ارادت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی ۔ اس کی خبر جب وہاں کے قاضی علامہ قطب الدین کاشانی کو ہوئی تو انہوں نے قلندر کے خلاف فتوی جاری کر دیا ۔ لعل شہباز کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ اس کے جواب کے لئے روانہ ہوئے مگر راستے میں ہی حضرت بہاوالدین ذکریا نے روک لیا اور قلندر ان ہی کے ہو رہے ۔

یہیں پر آپ کی ملاقات حضرت فرید الدین گنج شکر اور حضرت سرخ بخاری سے ہوئی۔اور یہ صحبت ایسی جمی کہ چار یار کے نام سے مشہور ہو گئے انہوں نے تبلیغ کا دائرہ ہندوستان کی کئی ریاستوں تک پھیلا دیا اور اپنے رویۓ اور کشش کے سبب لاکھوں لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔

حضرت بو علی شاہ قلندر کی ہدایت پر سیہون کا سفر اختیار کیا ۔یہاں جب تشریف لائے تو اس وقت وہاں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی جس کی ظلم و زیادتی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا حضرت لعل شہباز کے فیض اور دعاؤں سے یہاں کی عوام کو اس راجہ کے ظلم و جبر سے نجات ملی اور وہ اپنے قلعہ سمیت زلزلہ کے سبب جہنم واصل ہوا ۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ ایک معروف شاعر بھی تھے۔ آپؒ کے کلام میں معرفتِ الٰہی اور سرکارِ مدینہؐ کی مدح سرائی، عشق حقیقی کے والہانہ انداز جا بجا نظر آتا ہے۔ آپؒ کی شاعری میں روحانی وارفتگی اور طریقت و تصوف کے اسرار و رموز بے حد نمایاں اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں جو اکابر صوفیاء کرامؒ کا ایک خاص طرئہ امتیاز ہے۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ اپنے کلام میں عبدو معبود کے رشتوں کی ترجمانی اتنے حسین پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے قلوب میں گداز اور عشق و محبت کا جذبہ فروزاں ہونے لگتا ہے۔ جب آپ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر چکے تھے کہ آپ کو ملتان جانے کا خیال آیا۔ آپ کے دوست حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ ان کے فرزند حضرت صدرالدین عارفؒ ان کے جانشین تھے۔

حضرت صدرالدین عارفؒ کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ چند خدمت گاروں کے ہمراہ ملتان آرہے ہیں تو آپ کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ اپنی خانقاہ پر لے آئے۔ اس وقت شہزادہ سلطان محمد تغلق حاکم ملتان تھا ، اس نے بھی اپنے دربار میں محفلِ سماع رکھی اور حضرت لعل شہبازؒ کو اپنے دربار میں مدعو کیا۔ آپ نے دعوت قبول کرلی۔

کہتے ہیں اس محفل میں دوران سماع اچانک حضرت لعل شہباز قلندرؒ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ حالت وجد میں اٹھے اور رقص کرنے لگے۔ آپ یہی وجدانہ رقص اس دھمال کی بنیاد بنا جو آج بھی آپ کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے۔