تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا کو جلانے کے بجائے دفن کیوں کیا گیا؟
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 07, 2016 | 18:05 شام
تامل ناڈو(مانیٹرنگ)اس کے برعکس تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ کو شخصیت پرستی کا آئیکون کہا جا سکتا ہے کیونکہ ریاست میں کسی دیوی کی طرح ان سے عقیدت رکھی جاتی ہے۔جے للیتا کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ ہندو رسم اور روایت کے مطابق موت کے بعد انھیں نذر آتش کیوں نہیں کیا گيا؟مدراس یونیورسٹی میں تمل زبان و ادب کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر وی اراسو کہتے ہیں کہ اس کی وجہ جے للیتا کا دراوڑ جدوجہد سے منسلک ہونا ہے اور دراوڑ تحریک کا ہندو مذہب کے کسی برہمنی رسم و رواج میں عدم یقین ہے۔جے للیتا ایک مشہور اداکارہ تھیں اور پھر وہ دراوڑ پارٹی کی سربراہ بنیں، جس کی بنیاد برہمن ازم کی مخالفت پر قائم تھی۔
لیکن اکیڈمی آف سنسکرت ریسرچ کے پروفیسر ایم اے لكشمی تاتاچر نے بتایا کہ اسے کسی ہندو روایت سے منسلک کرنا درست نہیں۔ان کے مطابق، اس روایت میں ’جسم پر پہلے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ منتر پڑھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور پھر تلک لگا کر جسم کو آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے تاکہ روح جنت میں داخل ہو جائے۔خيال رہے کہ ایک عرصے سے جے للیتا کے نام پر ایک مندر کے قیام کی بات کی جا رہی ہے اور انڈین اخبار دا ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایم جی آر کی یوتھ ونگ نے رواں سال کے اوئل میں اماں ایالم نامی مندر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔خیال رہے کہ جے للیتا کو تمل ناڈو میں ’اماں‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور ان کے نام پر غریبوں کے لیے سستی قیمت پر سرکاری سکیم کے تحت ’اماں کینٹین‘ بھی چلتی ہے۔