بیٹے کے نام باپ کا خط ۔۔۔جس نے آنکھیں نم کر دیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 25, 2022 | 18:15 شام

میں ایک کمہار ہوں ، مٹی سے کھیلنا میرا دن رات کا کام ہے ، مٹی کے خوب صورت برتن بنانا ، ان کی تزئین و آرائش کرنا ہی میری گذر اوقات کا باعث ہے ۔ لیکن اس مٹی ، اسی خاک سے میرے چند خواب بھی وابستہ تھے ، یہ خواب میرے بیٹے کامران سے متعلق تھے جس کو میں پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ سب خواب جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے مٹی میں مل گئے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ شاید خاک کو خوشنما روپ دینے والوں کے خواب خوش نما نہیں ہوتے ۔ میں اپنے بیٹے کو پانچویں جماعت میں پاس ہونے پر ایک خوب ص

ورت مٹی کا گڈا بنا کے دینا چاہتا تھا اور اچانک اسے حیران کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن میں یہ سوچنا بھول گیا تھا کہ شاید ہم غریبوں کی قسمت میں خوشیاں نہیں ہوتیں ، ہمارے بچے بھی شاید اس قابل نہیں ہوتے کہ امیروں کی طرح انکی خوشیوں کا مان رکھا جائے ، ان کی معصوم خواہشات کو پورا کیا جائے ۔ شاید مجھے یہ علم نہیں تھا کہ غریبوں کے بچوں کے ارمان بھی ، ان کی خواہشات بھی مٹی کے کھلونے کی طرح ہوتی ہیں جنہیں جب چاہا جائے پیروں تلے روند دیا جائے ، توڑ دیا جائے ۔ ’’میرے پیارے بیٹے تم تو صرف یہ جانتے ہوناں کہ زمیندار کے بیٹے نے یہاں آکر وہی مٹی کا گڈا لینے کی فرمائش کی تھی اور تمھارے باپ نے ان کی بات چپ چاپ مان لی تھی ، مجھے پتا ہے کہ تم اسی بات پر مجھ سے بہت خفا ہو ، لیکن شاید تمھیں یہ معلوم نہیں کہ زمیندار کا بیٹا جو تمھارا ہم عمر بھی ہے اپنے ساتھ اپنے مزارعوں کی ایک فوج بھی لے کر آیا تھا اور بیٹا اس کے مزارعوں نے میرے آوے کو بھی توڑ دیا ، اور اسی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مجھے بھی مارا پیٹا کہ تم لوگوں کی کیا اوقات ہے ؟ اور ہم اس جیسے دس مٹی کے گڈے خرید سکتے ہیں لیکن مجھے صرف اسئلے یہ لینا ہے کہ یہ تمھارے بیٹے کے لئے بنا ہے ۔ ’بیٹا کیا اپنی اولاد سے محبت اتنا بڑا گناہ ہے جو میں نے کیا ؟ کیا اپنے بچوں کے جذبات کا خیال کرنا غلط ہے ، میں جانتا ہوں کہ تمھارا دل بہت اداس ہے اور وہ بھی اسی مٹی کے گڈے کی طرح ایک ہی ضرب سے ٹوٹ گیا ہے ، لیکن بیٹا تمھارا تو صرف دل ہی ٹوٹا ہی ہے ناں پر جانتے ہو کہ ایک باپ پر کیا گذری ہے ؟ اپنے شہزادے جیسے گڈے بیٹے کا کھلونا ٹوٹنے پر دل ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ میری روح بھی اب تلک زخمی ہے ۔