’قطریوں کو شکار، چینیوں کو حکمرانی نہیں کرنے دیں گے‘۔۔۔۔تفصیلات اس خبر میں جانئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 09, 2017 | 20:38 شام

 

اسلام آباد(مانیٹرنگ رپورٹ) سماجی کارکن و ماہر قانون عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان میں قطریوں کو شکار اور چینیوں کو حکمرانی نہیں کرنے دیں گے، جبکہ جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔

ایک پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حکومت ’سی پیک‘ مکمل اور ترقیاتی کام کرے ہم ساتھ دیں گے، لیکن ترقی کے نام پر انسانی حقوق پامال نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اختلاف رائے رکھتا ہے ت

و آپ اسے غائب کیوں کر رہے ہیں؟ ضیاءالحق بھی پاکستانیوں کے منہ پر تالے نہ لگا سکا، تو اغواءکار کیا لگالیں گے۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ملک میں زبان بندی اور دماغ بندی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، یہاں چینی اور سعودی افراد کو وہ حقوق ملتے ہیں جو ایک عام پاکستانی کو میسر نہیں اور حکومت پاکستانیوں کو وہ حقوق دینا چاہ رہی ہے جو چین یا سعودیہ میں شہریوں کو ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک ہمارا قومی ترانہ بن چکا ہے، اس کی مخالفت میں اگر کوئی بات کہہ دی جائے تو آپ کو غدار تصور کیا جاتا ہے جس پر کسی کو بھی اٹھایا جانا یا تنظیموں کو بند کرنا جائز ہے۔

ماہر قانون نے جبری گمشدیوں کے حوالے سے مزید کہا کہ حکمرانوں کو ان معاملات پر ہوش کے ناخن لینا چاہیے، اگر وہ یہ نہیں کر رہے اور حکومت کا کوئی ادارہ یہ کام کر رہا ہے تو اسے حکومت کی جانب سے چیلنج کیا جانا چاہیے صرف برآمدگی کے احکامات جاری کرنا کافی نہیں ہے، اگر اس طرح حکمرانی کرنا ہے تو نہ کریں ہمیں اختیارات دے دیں ہم اپنا دفاع خود کر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ چلا کر سزا دی جائے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا جبکہ یہ قانون کی بالادستی کی بات ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ افراد حکومت کے خلاف تنقید کرتے ہیں، صحیح یا غلط اس کے برعکس تنقید کرنے کا حق سب کو ہے، جبکہ اگر کوئی ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرے تو یہ اس کا حق ہے کیونکہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدیوں کے معاملے پر صرف عدالت یا حکومت کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، عدالتوں میں یہ کیس اٹھائے جانے کے بعد کئی افراد بازیاب ہوئے جن کے بیانات سپریم کورٹ میں قلمبند ہوئے جس میں انہوں نے اغواءکاروں کے نام اور وہ جگہیں بتائیں جہاں مغویوں کو رکھا گیا تھا، مگر اس کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ماہر قانون کے مطابق اس ملک میں جمہوریت ہم جیسے لوگ لاتے ہیں اراکین پارلیمنٹ نہیں، ہم لوگوں نے زندگی بھر جدوجہد کی ہے اس لیے ہم آزادی اظہار رائے کے حق کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ اب تک چار سماجی کارکن لاپتہ ہوچکے ہیں جن میں اسلام آباد سے سماجی کارکن و فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان حیدر، لاہور سے وقاص گورایہ اور عاصم سعید جبکہ شیخوپورہ سے احمد رضا نصیر شامل ہیں۔

چند روز قبل پروفیسر سلمان حیدر کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کی اہلیہ کو سلمان حیدر کے فون نمبر سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ کورال چوک سے ان کی گاڑی لے لی جائے۔

پولیس کے مطابق سلمان حیدر کے صحافی بھائی ذیشاں حیدر کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بعد تھانہ لوئی بھر میں ان کے اغوائ کی رپورٹ درج کرلی گئی ہے۔