ایک بیٹے کا ماں کو خط۔۔۔۔ایسی تحریر جو آپ کی آنکھ بھی نم کر دے گی۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 05, 2017 | 21:02 شام

ماں جی ۔۔۔۔۔۔ اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔

میں آپ کی ہدایت کے مطابق کھانا کھا کر اور تھوڑی چہل قدمی کر کے واپس اپنے کمرے میں آ گیا ہوں اور اب حسب معمول آپ کو دن بھر کی کار گزاری لکھ رہا ہوں لیکن نہیں آج میں آپ کو اپنی کار گزاری نہیں لکھوں گاکیونکہ آج میں بہت اُداس ہوں۔

میں اُداس اس لیے نہیں ہوں ماں جی کہ میں آپ سے بہت دور اپنے گاؤں اور اپنے دوستوں سے بہت دور اس اجنبی شہر میں پڑا ہوں اور اپنے آپ کو بے یارومددگار محسوس کرتا ہوں۔ میں اس لیے بھی اُداس نہیں ہوں ماں جی کہ میری ک

سی غلطی پر آج کالج میں مجھے ڈانٹ پڑی ہے یا کوئی جرمانہ ہوا ہے۔ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔میں پوری تندہی سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ میرے روزمرہ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح صبح سویرے اٹھتا ہوں، کالج جاتا اور کالج سے سیدھا گھر آتا ہوں۔

تو پھر میں کیوں اداس ہوں؟ آپ پریشان ہو رہی ہوں گی۔ کہیں مجھے روپے پیسے کی تو ضرورت نہیں، کسی سے میرا جھگڑا تو نہیں ہو گیا، میں جس مکان میں رہتا ہوں، وہاں تو کوئی تکلیف نہیں۔ نہیں ماں جی! مجھے اس طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ جب تک آپ کا سایہ میرے سر پر موجود ہے مجھے اس طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر میں کیوں اداس ہوں؟

شاید میری اداسی کچھ کم ہو سکے، اس لیے میں وہ واقعہ من و عن بیان کرتا ہوں جو آج صبح میرے ساتھ پیش آیا اور جس کے متعلق میں دن بھر سوچتا رہا ہوں۔ ہوا یہ کہ آج صبح جب میں کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا تو بلا اجازت دروازے پر دستک دیے بغیر ایک عورت میرے کمرے میں چلی آئی اور اس طرح بلا اجازت بغیر کچھ کہے سنے میرے پلنگ پر بیٹھ گئی۔

کسی عورت کے اس طرح میرے کمرے میں گھس آنے کا ذکر پڑھ کر آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ اس عورت کی عمر آپ کی عمر سے بھی زیادہ تھی۔ جب میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اسی طرح جیسے پیار سے آپ مجھے ’’بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔ اس نے بھی مجھے ’’بیٹا‘‘ کہا۔

اس نے کہا ’’بیٹا…! میں تمھیں ایک تکلیف دینے آئی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک مُڑا تڑا لفافہ میری طرف بڑھا دیا اور بڑے اشتیاق سے بولی ’’میرے بیٹے کا خط ہے۔‘‘ میں نے کسی حیل و حُجت کے بغیر فوراً خط پڑھا۔ کوئی خاص بات نہیں لکھی تھی۔ بالکل عام سا خط تھاجیسے میں ہر روز آپ کو لکھتا ہوں۔

یہی کہ میں بہت اچھی طرح سے ہوں، آپ بہت یاد آتی ہیں، آپ سے ملنے کو بہت دل چاہتا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ جوں جوں میں خط پڑھ رہا تھا، مارے خوشی کے اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی، جیسے وہ مجھ سے خط نہ سن رہی ہو، اپنے پیارے بیٹے کے میٹھے میٹھے بول خود اس کی زبان سے سن رہی ہو۔ جیسے وہ خط نہ آیا ہو، خود اس کا بیٹا آ گیا ہو۔ اس کی حالت دیکھ کر مجھے آپ کی بہت یاد آئی۔ اس ماں کے روپ میں میں نے اپنی ماں کو دیکھ لیا۔

اپنی پیاری ماں کو جو اس طرح میرے خطوں پر پھولے نہیں سماتی ہو گی۔ میرا دل آپ سے ملنے کو بے قرار ہو اُٹھا۔ بیچ بیچ میں ٹوک ٹوک کر اس نے ایک ایک جملہ کئی کئی بار سنا اور ہر جملے پر اپنے بیٹے کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں۔ ساتھ ساتھ مجھے بھی دعائیں دیں کہ میں اسے اس کے بیٹے کا خط پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ ’’ورنہ‘‘ اس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر کہا ’’یہاں کے لوگ تو ایسے طوطا چشم ہیں بیٹا کہ کسی کا خط پڑھ کر نہیں دیتے۔ الٹا دھتکار دیتے ہیں۔‘‘

دوسری باتوں کے علاوہ خط سننے کے دوران میں ہی اس نے بتایا کہ وہ میرے قریب پڑوس میں رہتی ہے اور بلاناغہ مجھے کالج جاتے اور کالج سے لوٹتے ہوئے دیکھا کرتی ہے۔ اس کے بیٹے کی عمر اور میری عمر میں مشکل سے ایک دو سال کا فرق ہو گا۔ وہ بھی میر ی طرح بڑا ہنس مکھ اور دوسروں کے کام آنے والا ہے۔

’’کتنی خوش نصیب ہیں وہ مائیں‘‘ یکایک اُچک کر اس نے میرا ماتھا چوم لیا، ’’جن کے بیٹے ایسے خوبیوں بھرے ہوں‘‘ اور جب میں نے خط کے وہ جملے دہرائے جن میں اس کے بیٹے نے لکھا تھا کہ اس نے چھٹی کی درخواست دے رکھی ہے اور چھٹی ملتے ہی وہ اپنی پیاری ماں سے ملنے آئے گا تو مارے خوشی کے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

پھر بڑے فخر سے بولی ’’دیکھا! کتنا اچھا ہے میرا بیٹا۔‘‘ اور پھر کافی دیر تک وہ اپنے بیٹے کی تعریفیں کرتی رہی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح شوہر کی وفات کے بعد انگلیوں کی پوریں توڑ توڑ کر اس نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا تھا اور اب… اب اس کے سارے دکھ درد دُور ہو گئے تھے۔ ایسا نیک اور ایسا سعادت مند بیٹا خدا ساری دنیا کی مائوں کو دے اور پھر بڑے رازدارانہ لہجے میں اس نے کہا ’’میں نے اس کے لیے چاند سی بہو دیکھ رکھی ہے۔ آتے ہی بیاہ کردوں گی۔‘‘ اور بالکل بچوں کی سی خوشی کے ساتھ وہ تالیاں بجانے لگی۔

ماں جی! آپ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ ہر ماں اپنے بیٹے سے اتنا ہی پیار کرتی ہے اور آپ تو مجھے اس سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں۔ پھر اس واقعہ سے میں اداس کیوں ہوا؟

یہاں مجھے اداس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسی معمولی معمولی باتوں پر میں اداس رہنے لگا تو آپ کی وہ اُمیدیں پوری نہ ہو سکیں گی، جنھیں آپ نے مجھ سے وابستہ کر رکھا ہے اور جنھیں پورا کرنے کی میں نے آپ کے سامنے قسم کھائی تھی۔ لیکن بات یہ ہے

ماں جی! وہ خط آج سے 25 برس پہلے کا لکھا ہوا تھا اور کسی محاذِ جنگ سے آیا تھا۔