داعش کا کارنامہ یا کچھ اور ۔۔۔۔۔ امریکہ کے مجسمہ آزادی کا سر تن سے جدا کر دیا گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 06, 2017 | 06:50 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی میڈیا  رپورٹوں کے مطابق یہ تنازعہ ہفتہ چار فروری کو اس وقت پیدا ہوا جب جرمنی کے ایک کثیر الاشاعت ہفت روزہ جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں، خاص کر ان کی امیگریشن پابندیوں کی پالیسی کو اپنی کور سٹوری کا موضوع بنایا۔بحث اس وجہ سے شروع ہوئی کہ اس میگزین نے اپنے سرورق پر ایک خاکہ شائع کیا، جسے دیکھنے کے بعد کسی کو بھی

کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس جریدے کی مراد کون سی عالمی شخصیت ہے۔

اس خاکے میں چہرے کے خد و خال دکھائے بغیر بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ نظر آنے والی ایک شخصیت کو اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں ایک خون آلود خنجر پکڑا ہوا ہے اور دائیں ہاتھ میں امریکا میں انفرادی اور اجتماعی آزادیوں کی علامت سمجھے جانے والے مجسمہ آزادی کا کٹا ہوا سر۔

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ خاکہ ایک ایسے بہت مشہور آرٹسٹ کا بنایا ہوا ہے، جو خود بھی سیاسی وجوہات کی بناء پر ترک وطن پر مجبور ہوا۔ ایڈل روڈریگیز نامی اس آرٹسٹ کا تعلق پیدائشی طور پر تو کیوبا سے ہے لیکن وہ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔

 ڈیر سپایگل کے شائع کردہ اس اسکیچ میں ایڈل روڈریگیز نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہت رکھنے والے فرد کے ہاتھوں میں صرف خون آلود خنجر اور مجسمہ آزادی کا کٹا ہوا سر ہی نہیں دکھائے بلکہ ساتھ ہی نیچے طنزا ٹرمپ کا بار بار استعمال کیا جانے والا انتخابی نعرہ ’امیریکا فرسٹ‘ یا ’پہلے امریکا‘ بھی لکھ رکھا ہے۔

اس خاکے کی اشاعت پر شروع ہونے والی بحث اور چند حلقوں کی طرف سے کی جانے والی شدید تنقید کے جواب میں ڈیئر اشپیگل کے چیف ایڈیٹر کلاؤس برِنک بوئمر نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’ہمارے جریدے کے ٹائٹل پر امریکی صدر اس علامت کی گردن زنی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، جس نے 1886ء سے لے کر اب تک تارکین وطن اور مہاجرین کو جمہوریت اور آزادی کی عملی حمایت کرتے ہوئے امریکا  میں خوش آمدید کہا تھا۔جرمنی میں ایک اہم جریدے کے سرورق پر اس خاکے کی اشاعت کے بعد خود جرمنی میں اور جرمنی سے باہر کئی یورپی اور غیر یورپی ملکوں کے میڈیا اداروں میں بھی اس موضوع پر ایک پرزور بحث شروع ہو گئی۔جرمنی کے کثیر الاشاعت عوامی روزنامے ’بلڈ‘ کے مطابق اس خاکے اور اس برطانوی شہری کے خاکے میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے، جسے بین الاقوامی میڈیا ’جہادی جان‘ کے نام سے جانتا ہے۔ جہادی جان شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا وہ جنگجو تھا، جسے اس جہادی تنظیم کی جاری کردہ کئی ویڈیوز میں اس طرح دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ داعش کے زیر قبضہ یرغمالیوں کے کٹے ہوئے سر ہوا میں لہراتے ہوئے نظر آتا تھا